وفاقی آئینی عدالتیں اور اقلیتیں : خالدشہزاد

اسلام آباد کے موسم اور پھلوں کے بارے جو کہاوت مشہور ہے ویسے ہی آج کل کے حکمرانوں بارے بھی یقین کے ساتھ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ بدلتے موسم کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت اور اس کے اتحادی سیاستدانوں کے بدلتے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے آئین میں کوئی بڑی تبدیلی کے خواہ ہیں جو کسی نا کسی صورت میں اس پر عملدرآمد کر گزریں گئے جس کے لیے ان کی کوششیں جاری و ساری ہیں، اور اس مقصد کے لیے میڈیا میں بحث و مباحثہ جاری و ساری ہے۔

سوشل میڈیا اور ہر ٹی وی چینل روزانہ اپنے ٹاک شو میں متوقع وفاقی آئینی عدالت کے بارے گفتگو کر رہے ہیں، اپوزیشن اس کی مخالفت میں بیان بازی کر رہے ہیں اور حکمران جماعت و اتحادی پارلیمان کی آئینی حیثیت اور آئین میں ترامیم کے حوالہ سے وفاقی آئینی عدالت کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ویسے تو پورے پاکستان میں 22 لاکھ سے زائد کیس سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہیں لیکن حکومت وقت کی سب سے اہم اور پہلی ترجیحی صرف وفاقی آئینی عدالت ہی ہے۔

کیا حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہی اقلیتوں کے لیے ایک مربوط اُمید ہے، جہاں اُن کے مقدمات کو سنا جاتا اور پھر عملدرآمد کے لیے بار بار سوِل بیوروکریسی کو بذریعہ نوٹسز اور خطوط یاد کروایا جاتا ہے، پاکستان میں توہین مذہب کے مبینہ جھوٹے کیسوں میں سالہا سال سے جیلوں میں بند قیدیوں کے مقدمات کا فیصلہ بھی آئین و قانون کے مطابق سپریم کورٹ میں ہی کیا جاتا ہے۔ حکمران اتحاد وہ کون سا طریقہ اختیار کریں گے کہ جس کی بدولت اقلیتوں کی داد رسی ممکن ہو سکے؟

ابھی تک تو پی ٹی آئی کو پنجاب، سندھ اور کے پی میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی مخصوص سیٹیں نہیں ملیں تو پھر آئینی عدالت کیسے عمل درآمد کرے گی؟ ابھی بھی کئی صوبوں میں اقلیتوں کو درجہ چہارم کی نوکری کے لیے ہی موضوع سمجھا جاتا ہے نا صرف سمجھا جاتا ہے بلکہ باقاعدہ اشتہار بھی دیا جاتا ہے۔ کے پی کے ضلع نوشہرہ سے انسانی حقوق کے ورکر دل راج گل نے بذریعہ انفارمیشن کمیشن کے پی کے سے میاں رشید شہید میموریل ہسپتال پبی میں اقلیتوں کے لیے مختص 5 فیصد جاب کوٹہ کے مطابق نوکریوں کی تفصیل مانگی تو حیران کن طور سے گورنمنٹ رشید حسین شہید میموریل ہسپتال کے سپریٹنڈنٹ نے 18 جولائی 2024 کو جواب دیا ” کہ ان کے ہسپتال میں صرف خاکروب کی اسامی ہی خالی ہے“ ۔

اسی طرح سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے گولڈ میڈلسٹ اور فارن کوالیفائیڈ ایسوسی ایٹ پروفیسر سلیم مسیح نے گریڈ 21 کی پروموشن کے لیے اپنی سی وی جمع کروائی تو توقع کے عین مطابق سلیکشن بورڈ نے مذہبی تنگ نظری کی بنیاد پر کم تجربہ کار اور سفارشی فرد کو سلیم مسیح پر ترجیح دی۔ اسی طرح رحیم یار خان اور بہاولپور کے سرکاری اداروں میں بھی اقلیتوں کو نظر انداز کر کے مسلموں کو نوازا گیا جس کے لیے مختلف درخواستیں یا تو سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر التوا ہیں یا پھر نمبر کے انتظار میں ہیں تاہم سپریم کورٹ اقلیتوں کے لیے وہ واحد روشنی کی کرن ہے کہ جس کے سہارے اقلیتیں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتیں ہیں۔

آج یا کل اگر وفاقی آئینی عدالت بن گئی تو کیا اقلیتوں کو ایک مرتبہ پھر فٹبال بنانے کا منصوبہ ہے یا پھر حکمران اتحاد عجلت میں اقلیتوں کو ایک مرتبہ پھر دیوار سے لگانا چاہتا ہے؟ یاد رہے کہ ”ماضی کے وزیر اعلیٰ پنجاب جو موجودہ وزیر اعظم ہیں کے دَور میں اقلیتوں پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ آج بھی گمبھیر زخموں کی طرح زندہ ہیں“۔

آج اگر وفاقی آئینی عدالت بنانا اتنا ہی اہم ہے تو پھر آئین میں ترمیم کر کے اقلیتوں کو بھی مخصوص نشستوں کی قید سے آزاد کیا جائے تاکہ مستقبل قریب میں اقلیتوں کو یہ واضح ہو جائے کہ ان کی قسمت کے فیصلے وفاقی آئینی عدالت کرے گی یا پھر سپریم کورٹ آف پاکستان۔

نوٹ: ”تادیب“کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری ہیں۔”تادیب“ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading