خود ضبطی سے مراد خواہشات نفسانی کو روکنا، زاہد و تقوی، پرہیزگاری ، پاک دامنی اور پاک بازی مراد ہے۔ سادہ زبان میں یوں کہہ لیجئے کہ ان تمام گناہوں سے اجتناب کرنا ہے جو انسان کے جسم و روح کو الودہ کرتے ہیں۔ انسان اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے۔ ہم معاشرتی زبوں والی کی بدولت ایک تجزیاتی رپورٹ تیار کر سکتے ہیں۔
اپنے ارد گرد کے حالات کا بے لاگ جائزہ لے سکتے ہیں؟ ضبط اور بے ضابطگیوں کے درمیان ایک فرق محسوس کر سکتے ہیں۔اس سے قبل اس حقیقت کو اپنے قلب و ذہن میں اس طرح ضرور محسوس کریں کہ آسمان و زمین کے درمیان خدا نے سب سے پہلے کائنات بنائی۔ پھر انسان کو پیدا کیا۔ اسے اپنی شریعت دی۔ اس کے قلب و ذہن میں نیکی اور بدی کا تصور پیدا کیا۔
ساتھ ہی گناہ کے انجام کے بارے میں بھی بتا دیا۔ مگر انسان نافرمانی کے باعث گناہ میں گر گیا۔ باغ عدن سے نکالا گیا۔ حالانکہ خدا آدم اور حوا سے ٹھنڈے وقتوں میں ملنے کے لیے آتا تھا۔ یہ رفاقت و شراکت کا خوبصورت عمل تھا۔میل ملاپ کا خوبصورت سنگم تھا۔ ابتدائی رفاقت پرسکون اور محبت کے حقائق پر مبنی تھی۔ لیکن جب انسان شیطان کے شکنجے میں آگیا۔ اس نے خدا کی بات کو پس پشت ڈال دیا۔ نتیجتا اس کی زندگی میں تین قسم کی خواہشوں نے جنم لیا۔مثلا جسم کی خواہش ، آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی کا تصور۔ بعد ازاں یہی چیزیں اس کی سرشت میں پیوست ہو گئیں۔ وقت گزرتا گیا مگر انسان گناہ کی دلدل سے باہر نہ آ سکا۔ آج بھی پرانی انسانیت ہے۔ پرانے خیالات ہیں۔ اگرچہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ انسان نے جدیدیت کا لباس تو اوڑھ لیا مگر اپنی فطرت نہ بدلی۔ وہ لگاتار گناہ کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔ روز اول سے ہی جسم اور روح کی لڑائی ہے۔ فطرت میں باغیانہ رویہ ہے۔ حسد اور بغض کی روح ہے۔ جلن اور کڑھن ہے۔ اگر بنیادی طور پر اس بات کو کھرچا جائے تو سب سے پہلے جسم کا ضبط ہے۔ دوسرے نمبر پر ذہن کا ضبط ہے اور تیسرے نمبر پر زبان کا ضبط ہے۔ ان تینوں کو جب تک ضبط کی نکیل نہ ڈالی جائے اس وقت تک اطمینان حاصل نہیں ہوتا بلکہ انسان پر ہر وقت بے چینی کی کیفیت طاری رہتی ہے۔وہ اچھے برے تصورات کی جنگ لڑتا رہتا ہے۔ کون سے خیالات اس پر غالب آ جائیں یہ اسے بھی پتہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ فطری طور پر کمزور و بے بس ہے۔ وہ بہت جلد گناہ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتا ہے۔ آزمائش میں گر جاتا ہے۔ بہکاوے میں آ جاتا ہے۔ بہت جلد اس کی زبان سے لالچ کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ دوسروں کی خوشی سن کر اس کے چہرے پر تعصب کی سلوٹیں پڑ جاتی ہیں۔ وہ ایسے آثار و کیفیات کا مسلسل شکار ہوتا ہے۔ خیالات کی دستک کا بھی عجیب رویہ ہے۔ کبھی یہ ذہن کو بڑی تندی کے ساتھ جکڑتے ہیں اور کبھی آہستہ آہستہ حملہ کرتے ہیں۔ اگرچہ خیالات نہ رکنے کا مسلسل عمل ہے۔ یہ شب و روز کا امتیاز کیے بغیر ہم کلام ہوتے ہیں۔ نہ انہیں کسی سمت کی پرواہ اور نہ کسی انتظار کی۔ یہ سرحدوں کی پرواہ کیے بغیر دستک دیتے ہیں۔ ان کی فضیلت و کرامات کا انوکھا کھیل ہے۔ کیونکہ خیالات کا چرخہ تجربے مشاہدے اور عمل کی بھٹی سے گزر کر کاتنے کا عمل مکمل کرتا ہے۔اسی طرح زبان کا ضبط ہے۔اگر اسے بے لگام چھوڑ دیا جائے تو نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے۔کیونکہ زبان سے دیے ہوئے زخم جسمانی ناسوروں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ان کی اثر افرینی کا عالم یہ ہے کہ نہ یہ بھرتے ہیں اور نہ یہ ٹھیک ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کا کرب مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔لہذا زبان کے ضبط کا کھیل بھی بڑا دلچسپی کا مظہر ہے۔
اسے حواس میں رہ کر کھیلنا پڑتا ہے۔ اپنے ارد گرد ماحول کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔گفت و شنید میں محتاط رویہ اپنانا پڑتا ہے۔ الفاظ اور جذبات پر کنٹرول کر کے مثبت پیش رفعت کی راہ پر چلتے ہوئے گفتگو کا آغاز کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ باتیں اور خیالات چنگاریوں کی مانند ہوتے ہیں۔ انہیں محض موقع کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ بہت جلد آگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ذہن پر غصے کی بدروح طاری کر دیتے ہیں۔ آنکھوں میں سرخی بھر دیتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں میں اعصابی رعشہ پیدا کر دیتے ہیں۔ روح کو ناپاک بنا دیتے ہیں۔اس کے برعکس اگر انہیں ضبط کی نکیل ڈال لی جائے تو حالات قابو میں رہ سکتے ہیں۔ ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
*******