پتھر، ریت، پانی، سیر و سفر، سرگزشت : صلاح الدین حیدر

اردو ادب کے وسیلے سے بہت بھاری بھر کم سفر نامے بھی منظر عام پر آئے، لیکن جاوید یادؔ کے تاثراتی جزیروں کی تصویروں میں اسلوب کی سادگی متانت نے مقام، مناظر کے ساتھ تاریخی پس منظر کی جانب بھی توجہ کی اور یوں ”پتھر ریت پانی“ کے صفحات پر مصنف کی سوانحی سرگزشت کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ اور یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ کوئی منظر یا مندر، عمارت یا پہاڑ کی چوٹی، خانقاہ یا مسجد کے محراب گزشتہ ادوار کی تاریخ کی رزم گاہ کے ناطے معنی آشنا نظروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ دستاویز مصنف کے نیپال، ملائیشیا، ابوظہبی میں قیام کی روداد ہی نہیں بلکہ ان ممالک کے تاریخی پس منظر سیاسی حالات و واقعات اور آثار قدیمہ کے مشاہدات، اشارات سے بھی روشنائی کا وسیلہ ہے اور وہ قاری کی دلچسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت اجمال، اختصار کے ساتھ کام کی بات سامنے لے آتے ہیں۔ وہ نہ تو عبارت آرائی کے ناطے قلعے بند ہوتے ہیں اور نہ ہیں تعلمانہ وقار سے بات کو طول دیتے ہیں یعنی سُسر کا لفظ کتاب میں سامنے آ جائے تو پندہ بیس فٹ سُسر اور سُسرے کے معانی کے فرق، ذہنی فاصلے اور آغاز ارتقا پر بیان نہیں کرتے، جاوید صاحب اس کی تاریخ میں مستور اساطیر ماضمیاتی پس منظر کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں مثلاً،
کھٹمنڈو میں نیپال کا سب سے بڑا مندر ہے، بُدھ مت کے لوگ اس سے بہت زیادہ عقیدت رکھتے ہیں، میں نے یہ مندر بہت عجلت اور افراتفری میں دیکھا تھا۔ لیکن اب یہ بڑا رنگین اور خوبصورت لگا، سو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خوبصورتی کو نظروں کی تلاش رہتی ہے۔ گھٹمنڈو کے چڑیا گھر کی سیر کے دوران جانوروں کا شماریاتی مطالعہ بھی قابلِ توجہ ہے اور یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ صحت کی خرابی یا پھر عمر رسیدگی بچوں کی طرح جانوروں سے مانوس ہونے کا موقع نہیں دیتی۔ تاہم یہ بات بھی نظرانداز نہیں ہو سکتی کہ ہم جس دنیا کے عادی ہیں وہاں جانوروں کو دیکھنے کے لئے چڑیا گھر کا رُخ کرنے ضرورت پیش نہیں آتی۔
جاوید یاد صاحب کام کی بات بہت سادگی ملائمت اور بلاغت کی آمیزش سے بیان کر جاتے ہیں۔ جیسے ”نیپال ایک مندروں کا ملک ہے کیونکہ یہاں ہندوؤں اور بُدھ مت لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔“ نیپال کے سفر کی روداد 13 ابواب یا تاثراتی اقتباسات پر مشتمل ہے، پھر ایک تاثراتی مضمون ہے جسے مصنف نے تخیلاتی کہانی ”وہ کون تھی“ کا عنوان دیا ہے، میں روشنی کا کردار ہے جو صبح کے ستارے کی طرح ساتھ ساتھ چلتی ہے اور صبح کی سیر کے دوران اسکے قدموں کی چاپ بتدریج دور ہوتی گئی اور کسی سراب سے نکل کر مصنف تنہا رہ گیا۔۔۔ سو یہ علامتی انداز سے سماجی بندھنوں سے تخیل کے نبردآزما ہونے کی روداد ہے؟
سفری تاثرات کا دوسرا حصہ متحدہ عرب امارات اور ان کی بڑی مسجد سے تعارف کا وسیلہ ہے اور پہلے جملے میں یہاں کی سیاحت کی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے کہ مصنف کے بیٹے شاب جاوید کی جاب ابوظہبی میں ہے اور اس تعارف سے قصیدے کی زبان میں گریز کرنے ہوئے لکھتے ہیں ”ایک ہم ہیں کہ ہمارے ملک میں سونے کی کانیں نکلتی ہیں اور کرپشن کی نذر ہو جاتی ہیں اور پھر مسجد اس کی لائبریری، سفید گنبد پانی حوض عجائب گھر کی سیر اور پھر اس سیر کے بعد ایک بے ساختہ اسلوب سے ملائیشیا کا تاریخی پس منظر شتر مرغ کے فارم کی سیر جہاں بڑے قدم کے شتر مرغ لکڑی کی باڑ میں مقید پارلیمانی لیڈروں کی طرح حیران کر رہے تھے۔۔ پھر کوالامپور شہر، جڑواں مینار، ایپو شہر ایپو غار سانپوں کا محل وغیرہ میں مستور کئی کہانیاں سوالات کے تسلسل کے ساتھ روبرو آجاتی ہیں۔
یہ تکنیک سیربین (ُانہزاما) کے مماثل نظر آتی ہے۔میں اس زمانے کی بات کر رہا ہوں جب ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز نہ ہوا تھا۔ تو محلے میں کوئی بزرگوار ایک گتے کا ڈبہ کاندھے سے لگائے منظر عام پر آکر صدا لگاتے۔ بچے ان کے گرد جمع ہو جاتے، گتے کے ڈبے سے کاغذ اور پلاسٹک سے بنی ایک بڑی عینک جڑی ہوتی تھی اور ڈبے میں نصب سرکنڈوں کو گھما کر تصویری مناظر تبصرے کے ساتھ منظر عام پر لائے جاتے تھے۔ اور اس سادگی سے عکس بندی میں عجب اثر آفرینی ہوتی تھی۔ جناب جاوید یاد کے سفر نامے نے سرکنڈوں میں گھومنے والے سادہ و موثر ”سیربین“ کی یاد دلا دی ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading