جمہوری عمل کی توہین اور اقلیتیں : خالد شہزاد

پنجاب بلدیاتی ایکٹ 2025 نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو سیاسی شمولیت کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ و زیرِ اعلیٰ مریم نواز کے وعدوں کے برعکس، اقلیتوں کو براہِ راست ووٹ کے ذریعے نمائندگی دینے کے بجائے مخصوص نشستوں کی زنجیر میں جکڑ دیا گیا ہے۔ جو جمہوری اصولوں اور آئینی مساوات کے منافی ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے منظور کردہ پنجاب بلدیاتی ایکٹ 2025 نے اقلیتوں کے حقوق پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ماضی میں و زیرِ اعلیٰ مریم نواز نے وعدہ کیا تھا کہ پنجاب کے بلدیاتی نظام میں اقلیتوں کو براہِ راست نمائندگی دی جائے گی تاکہ وہ اپنے نمائندے خود ووٹ کے ذریعے منتخب کر سکیں۔ مگر نئے ایکٹ میں یہ وعدہ محض ایک سیاسی نعرہ ثابت ہوا۔

متناسب نمائندگی کے نام پر اقلیتوں کو ایک بار پھر مخصوص نشستوں پر محدود کر دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عوامی ووٹ سے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی فہرستوں سے نامزد ہوں گے۔ یہ طرزِ انتخاب اقلیتوں کے حقِ رائے دہی کی نفی کرتا ہے اور انہیں جمہوری عمل سے عملاً باہر رکھتا ہے۔

یہ بات مزید افسوسناک تب بن جاتی ہے جب پاکستان کو حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے دعوے اور اندرونِ ملک اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک میں یہ تضاد ایک اخلاقی بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔

دلچسپ مگر تضاد سے بھرپور حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غیر جمہوری آمر قرار دیتے ہوئے عدالتوں میں اس کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور آخرکار اسے ملک بدر کیا۔ لیکن اسی پرویز مشرف کا بنایا ہوا بلدیاتی نظام۔ جس میں مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندگی کا غیر جمہوری طریقہ متعارف کروایا گیا تھا۔ آج مسلم لیگ (ن) خود اپنے سیاسی مفاد کے لیے گلے سے لگا بیٹھی ہے۔

یہ طرزِ عمل نہ صرف سیاسی منافقت بلکہ جمہوریت کے تصور کی توہین بھی ہے۔

پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے سمیت وفاق اور سینٹ میں اقلیتوں کو پہلے ہی متناسب نمائندگی کے تحت نامزدگیوں کے ذریعے شامل کیا جاتا ہے، اور اب بلدیاتی سطح پر بھی یہی طریقہ رائج رکھنا دراصل انہیں سیاسی غلامی کے ایک نئے دائرے میں دھکیلنا ہے۔ یہ عمل نہ صرف آئینی نا انصافی بلکہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 36 اور انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

اقلیتوں کے نمائندے، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنان حکومتِ پنجاب اور وفاقِ پاکستان سے درج ذیل اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں : پنجاب بلدیاتی ایکٹ 2025 میں فوری ترمیم کی جائے تاکہ اقلیتی نمائندے مخصوص نشستوں کے بجائے براہِ راست ووٹ سے منتخب ہوں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اندر اقلیتی ونگز کو پالیسی سازی میں موثر کردار دیا جائے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لیے براہِ راست انتخابی حلقے مختص کیے جائیں اور آئین کے آرٹیکل 36 پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تاکہ اقلیتوں کے حقوق صرف کاغذی نہیں بلکہ عملی سطح پر یقینی بن سکیں۔ پاکستان اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اپنی رکنیت کے دعووں کو تقویت دینے کے لیے ملکی سطح پر حقیقی جمہوری اصلاحات متعارف کروائے۔ اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا نظام دراصل شمولیت نہیں بلکہ محدودیت کی علامت ہے۔ جب تک انہیں اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا حق نہیں دیا جاتا، تب تک جمہوریت کا چہرہ ادھورا اور اس کا وعدہ نامکمل رہے گا۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading