پاکستان میں بڑھتی اور دہشت گردی کی نئی لہر نے جہاں حکومتی اور دفاعی اداروں کو اپنی پالیسیوں کو نئے سرے سے اپنانے کی خاطر بیدار کیا ہے وہیں پر بین الاقوامی قوتوں اور ملک دشمن تنظیمیں نے تنقید کے نشتر بھی موجودہ حکومت اور ہماری افواج کی طرف موڑ دیا ہے۔ ہماری افواج اور سول اداروں نے گزشتہ کئی سالوں سے ملکی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کے دفاع کو بہت مضبوط بھی کیا ہے جسکے لیے ہم اپنے جوانوں اور فوج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پولیس اور فوج کی دی ہوئی قربانیوں کو ہم بطور پاکستانی ہمیشہ یاد رکھیں گئے۔
پاکستان میں قومی سلامتی کے معاملات پر بلائی جانے والی قومی کانفرنسوں میں اقلیتوں کو نظر انداز کیے جانے کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں، جن میں سماجی، سیاسی، تاریخی، اور ادارہ جاتی وجوہات شامل ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا تجزیہ مختلف زاویوں سے کیا جا سکتا ہے۔
۔۱۔ قومی سلامتی کا روایتی تصور اور اقلیتوں کی شمولیت
پاکستان میں قومی سلامتی کا روایتی بیانیہ زیادہ تر داخلی و خارجی خطرات، عسکری پالیسیوں، اور ریاستی استحکام کے گرد گھومتا ہے۔ ان معاملات پر ہونے والی کانفرنسوں میں عموماً دفاعی اداروں، سیاسی رہنماؤں، اور پالیسی سازوں کو مدعو کیا جاتا ہے، جبکہ اقلیتوں کے نمائندے، جو سماجی اور شہری حقوق کے حوالے سے اہم رائے رکھتے ہیں، اس بیانیے میں جگہ نہیں پاتے۔
۔۲۔ اقلیتوں کی کمزور سیاسی نمائندگی
پاکستان میں اقلیتوں کی سیاسی نمائندگی محدود ہے، جس کی ایک بڑی وجہ مخصوص نشستوں پر ان کا انحصار اور مرکزی سیاسی دھارے میں ان کی شمولیت کا فقدان ہے۔ اکثر اوقات قومی سلامتی سے متعلقہ امور پر مشاورت میں وہ لوگ شامل کیے جاتے ہیں جو فیصلہ سازی پر براہ راست اثر رکھتے ہیں، جبکہ اقلیتوں کی آواز کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ وہ ان پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکے۔
۔۳۔قومی بیانیے میں اقلیتوں کے کردار کو محدود سمجھنا
پاکستان کی قومی تاریخ میں اقلیتوں کا کردار نمایاں رہا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا دائرہ محدود کر دیا گیا ہے۔ قومی کانفرنسوں میں زیادہ تر بیانیہ مسلم اکثریتی تشخص کے گرد گھومتا ہے، جس میں غیر مسلم شہریوں کے تحفظات اور ان کے قومی سلامتی میں ممکنہ کردار کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
۔۴۔سکیورٹی اور داخلی استحکام کا مخصوص نظریہ
اکثر قومی سلامتی کے مسائل دہشت گردی، سرحدی تنازعات، اور داخلی استحکام کے گرد مرکوز ہوتے ہیں۔ اقلیتوں کو بعض اوقات صرف ان معاملات میں شامل کیا جاتا ہے جب ان سے متعلق کوئی مسئلہ شدت اختیار کر لے، جیسے کسی مذہبی اقلیت پر حملہ یا کسی مخصوص گروہ کے خلاف تشدد۔ لیکن عمومی طور پر انہیں سکیورٹی پالیسی سازی کے مستقل شراکت دار کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
۔۵۔سماجی اور نفسیاتی عوامل
کئی اقلیتی گروہ خود کو قومی سلامتی کے مباحث میں شامل کروانے کی کوشش نہیں کرتے، کیونکہ وہ ریاستی اداروں سے دوری محسوس کرتے ہیں۔ یہ احساس عدم تحفظ اور ماضی کے تجربات کا نتیجہ ہوتا ہے، جن میں انہیں مکمل ریاستی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب، پالیسی ساز بھی ان کی شمولیت کو ایک ضرورت کے بجائے ایک غیر ضروری شمولیت سمجھتے ہیں
۔۶۔بین الاقوامی دباؤ اور ریاستی پالیسی
جب پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ آتا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنائے، تو حکومت اس حوالے سے کچھ نمائشی اقدامات کرتی ہے، جیسے اقلیتوں کے لیے خاص تقریبات یا بیانات جاری کرنا۔ تاہم، قومی سلامتی جیسے حساس معاملات میں ان کی شمولیت کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، کیونکہ پالیسی ساز اسے داخلی مسئلہ سمجھ کر بین الاقوامی دباؤ سے الگ رکھتے ہیں
نتیجہ
اقلیتوں کو قومی سلامتی کی کانفرنسوں میں شامل نہ کرنے کا رجحان تاریخی، سیاسی، اور سماجی وجوہات کا نتیجہ ہے۔ تاہم، اگر پاکستان ایک جامع اور حقیقی جمہوری ریاست بننا چاہتا ہے، تو اسے قومی سلامتی کی بحث میں اقلیتوں کو شامل کرنا ہوگا۔ اقلیتیں بھی اسی ملک کا حصہ ہیں اور ان کے تحفظات، مسائل اور نظریات کو نظرانداز کرنا قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
*******