حکومت کے دعوے اور بچوں کی حالتِ زار: نبیلہ فیروز بھٹی

پاکستان 1990 سے اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق اطفال کا فریق ملک ہے اور ملک میں بچوں کی صورتحال سے متعلق میعادی رپورٹیں اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے حقوق اطفال کو پیش کرنے کا پابند ہے۔ ریاست نے چھٹی رپورٹ جون 2021 میں پیش کرنا تھی لیکن کچھ پچھلی رپورٹوں کی طرح اسے جمع کروانے میں بھی تاخیر ہوئی۔ ریاستِ پاکستان نے اگست 2023 میں چھٹی اور ساتویں مشترکہ رپورٹ جمع کروائی جو جون 2016 سے جون 2021 تک کی مدت کا احاطہ کرتی ہے۔ جسے 5 فروری 2024 کو اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ  پر شائع کیا گیا۔

حکومت ِپاکستان نے جمع کروائی گئی رپورٹ میں بچوں کے حالات میں بہتری کے بہت بڑے بڑے دعوے کیے ہیں جنہیں یہاں مختصر تجزیے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

بچے کی عمر

ریاست کا دعویٰ ہے کہ بچے کی تعریف کو بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے کئی قوانین بنائے گئے ہیں تاہم قومی اور صوبائی سطح کی قانون سازی میں کئی تضادات ہیں جن میں بچے کو اٹھارہ سال سے کم عمر فرد کے طور پر نہیں بیان کیا گیا۔ اگر صرف قومی سطح پر ہی دیکھا جائے تو ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 میں بچے کی کام کرنے کی عمر چودہ سال ہے، الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں بچے کی عمر متعین نہیں کی گئی، پورے ملک میں لڑکیوں کی شادی کی عمر سولہ سال ہے سوائے صوبہ سندھ کے۔

کم عمری کی شادی

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017۔ 18 کے مطابق پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں میں سے 3.6 فیصد شادی شدہ ہیں جبکہ 18.3 فیصد لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں ہوئیں۔ تاہم یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 21 فیصد پاکستانی لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں اور تین فیصد کی شادی پندرہ سال سے پہلے ہو جاتی ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں ملک میں کم عمری کی شادیوں کے 119 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 95 فیصد لڑکیوں کے اور پانچ فیصد لڑکوں کے تھے۔

ریاستی رپورٹ میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ حکومت بچپن کی شادی کو روکنے کے لئے کب مضبوط قوانین بنائے گی خاص طور پر لڑکیوں کے لئے شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال کی دفعات متعارف کروانا۔ کم عمری کی شادی سے نمٹنے، شکایات کے اندراج اور اس جرم کے لئے انصاف کی فراہمی کے لئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ اسلام آباد اور صوبوں میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے تحت کتنے مقدمات درج ہوئے؟

چائلڈ لیبر

ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بچہ مزدوری سے نمٹنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کیے ہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں 12 ملین بچے مزدوری کر رہے ہیں۔ بچہ مزدوری کے متعلق سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ مختلف صوبوں میں لیبر انسپیکٹروں کی تعداد کے متعلق بھی کوئی معلومات نہیں۔ کتنے مجرموں کو بچہ مزدوری کے مقدمات میں سزا ہوئی؟ چائلڈ پروٹیکشن حکام نے بچوں کو معاشی استحصال سے بچانے کے لئے کیا اقدامات کیے؟

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں گھریلو بچہ مزدوری پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اسے ایمپلائمنٹ چلڈرن ایکٹ 1991 کے شیڈول کے حصہ اول میں ایک ممنوعہ پیشے کے طور پر شامل کیا گیا ہے جہاں ایک کارکن کی کم سے کم عمر 14 سال ہے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے تحت پنجاب میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں کی گھریلو بچہ مزدوری پر پابندی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان قوانین میں بچے کی عمر کو اٹھارہ سال سے ہم آہنگ کیوں نہیں کیا گیا؟ کیوں تمام صوبے گھریلو بچہ مزدوری کے خلاف جامع قانون نہیں بنا رہے؟ رپورٹنگ کی مدت میں کتنے گھریلو بچہ مزدورو ں کے ساتھ ان کے آجروں نے زیادتی کی؟ کتنے مجرم آجروں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انھیں سزا سنائی گئی؟ ریاست نے بانڈڈ لیبر خاص طور  پر گھریلو بچہ مزدوری، بھٹوں پر کام، زرعی کام اور قالین بافی میں غلامی جیسے حالات میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد جاننے اور ان کے بچاؤ کے لئے کیے گئے اقدامات کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی۔

بچوں کا تحفظ

حکومت کا دعویٰ ہے کہ رپورٹنگ پیریڈ میں وفاقی اور صوبائی سطح پر بچوں کے حقوق کے متعدد ادارے بنائے گئے۔ رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ان اداروں کے مینڈیٹ کو واضح کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے گئے؟ مختلف صوبوں میں بچوں کے تحفظ کے قوانین کو نافذ کرنے کے لئے کتنے وسائل مختص کیے گئے؟ بد سلوکی، تشدد، استحصال، نظر اندازی اور نقصان دہ رسومات سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے گئے؟

رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مختلف صوبوں میں سٹریٹ چلڈرن کے لئے مختلف مراکز قائم کیے گئے ہیں جو تحفظ، رہائش، صحت اور تعلیمی مواقع جیسی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ تاہم دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن باڈیز کو اکثر سٹریٹ چلڈرن پکڑنے کو کہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں انھیں سڑکوں سے عارضی طور پر ہٹا دیا جاتا ہے۔ عجلت میں اٹھائے جانے والے اقدامات جو چائلڈ پروٹیکشن کے معیارات پر پورے نہیں اترتے ان کی وجہ سے بچوں کو اور زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس کام کے لئے عام طور پر پولیس کا استعمال کیا جاتا ہے جو بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے لئے بدنام ہے۔

مزید برآں، تمام صوبوں اور علاقہ جات میں بچوں کے تحفظ کی پالیسیاں بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ کئی بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، حکومتیں ان پر توجہ کیوں نہیں دیتیں۔ کیا حکومت بچوں سے بھیک منگوانے والے بالغوں کو گرفتار کرتی ہے۔ حکومت نے بچوں کے تحفظ کے طریقۂ کار کو مضبوط بنانے اور گلیوں کی صورتحال میں رہنے سے چھٹکارے کے لئے کیا ٹھوس اقدامات کیے ہیں؟

زیرِ بحث رپورٹ شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں، دلت بچوں، ہم جنس پرستوں، ٹرانسجینڈر، انٹرسیکس بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں خاموش ہے حالانکہ یہ سوال پانچویں میعادی رپورٹ میں پوچھا گیا تھا۔

جووینائیل جسٹس

ریاست مزید دعویٰ کرتی ہے کہ رپورٹنگ پیریڈ کے دوران صوبائی اور وفاقی سطح پر بچوں کی بہتری کے لئے متعدد قوانین بنائے گئے۔ تاہم کئی قوانین کو نوٹیفائی نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے رولز بنائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر جووینائیل جسٹس سسٹم ایکٹ (JJSA) ، 2018 صرف اسلام آباد اور خیبرپختونخوا میں نوٹیفائی ہوا ہے باقی تمام جگہوں پر اس کے رولز ہی نہیں بنے۔ صرف 13 چائلڈ پروٹیکشن کورٹس قائم ہوئیں آٹھ کے پی میں اور پانچ باقی ملک میں۔ یہ بھی جامع جووینائیل کورٹس نہیں ہیں، حالانکہ جووینائیل جسٹس سسٹم ایکٹ میں Inclusive جووینائیل کورٹس کا کہا گیا ہے۔ تاہم چائلڈ پروٹیکشن کورٹس نے بچوں کے لئے انصاف کے طریقۂ کار میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بدقسمتی سے پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے ان عدالتوں سے جووینائیلز کے مقدمات کی سماعت کا دائرہ اختیار چھین لیا۔ مجموعی طور  پر تمام صوبوں میں عدالتی حکام نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس میں تمام ایڈیشنل سیشن ججوں کو جووینائیلز کا جج تعینات کر دیا گیا ہے جو جووینائیل کورٹس کی خاص خصوصیات کو یا تو پوری طرح سمجھتے نہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔

مزید برآں، جووینائیل جسٹس سسٹم ایکٹ کے تحت پاکستان کے تمام اضلاع میں جووینائیل جسٹس کمیٹیوں کا قیام ضروری ہے۔ تادمِ تحریر صرف آٹھ کمیٹیاں نوٹیفائی کی گئی ہیں اور وہ بھی غیر فعال ہیں۔ ملک میں کل 166 اضلاع ہیں اور جووینائیل جسٹس سسٹم ایکٹ کی رُو سے ہر ضلع میں فعال کمیٹی درکار ہے۔ ریاستی رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ مختلف علاقہ جات میں نابالغوں کو مفت قانونی امداد بہم پہنچانے کے لئے کتنی رقم مختص کی گئی ہے؟ کتنے Inclusive Observation Homes اور جووینائلز کی بحالی کے ادارے قائم کیے گئے ہیں؟ نابالغوں کے کتنے مقدمات زیرِالتوا ہیں؟ نابالغوں کے سپیڈی ٹرائل کے لئے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوقِ اطفال کے General Comment 24 کے مطابق JJSA پر مکمل عمل درآمد کی فوری ضرورت ہے۔

بچوں کی صحت

رپورٹ میں بتایا گیا ہے 2016۔ 17 میں صحت کا بجٹ 145.97 بلین روپے تھا جو کہ 2019۔ 20 میں بڑھا کر 482.3 بلین روپے کر دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحت کا بجٹ کل بجٹ اور جی ڈی پی کا کتنے فیصد ہے؟ پاکستان میں پولیو وائرس کا پھیلاؤ ایک تشویش ناک مسئلہ ہے۔ پوری دنیا کو پاکستان اور افغانستان میں پولیو کی موجودگی سے خطرہ ہے۔ پاکستان میں جولائی 2024 تک نو کیس رپورٹ ہوئے، 2023 میں چھ اور 2022 میں بیس۔ حقیقت یہ ہے کہ 2019۔ 2021 کے درمیان 46.8 بلین روپے کی بڑی سرمایہ کاری کے باوجود پولیو کے خاتمے کی مہم اپنے نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

پاکستان کے پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے نشوونما میں رکاوٹ کا شکار ہیں یعنی تقریباً 10 ملین پاکستانی بچے Stunted ہیں۔ ریاست کا دعویٰ ہے کہ 2021 تک مختلف صوبوں میں مختلف ناموں سے بھاری بجٹ کے ساتھ بہت سے Stunting Reduction منصوبے مکمل کیے گئے۔ حکومت نے کوئی دلیل پیش نہیں کی کہ آنے والے سالوں میں Stunted rate اتنا بلند کیوں رہا؟

بچوں کی تعلیم

ریاستی رپورٹ کے مطابق تعلیم سے متعلق اخراجات میں اضافہ ہوا جبکہ اسی رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار 52 ارب کی کمی ظاہر کرتے ہیں۔ مزید برآں وفاقی اور صوبائی تعلیمی بجٹ کل بجٹ کا کتنے فیصد ہیں اس کا رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں۔ ریاست کا دعویٰ ہے کہ آئین کے آرٹیکل میں دیے گئے تعلیم کے حق کی پاسداری کے لئے قومی اور صوبائی قوانین بنائے گئے ہیں۔ تاہم یونیسکو کے تعاون سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر 26.2 ملین ہو گئی ہے۔ احساس پروگرام اور دیگر سماجی تحفظ کے پروگرام جو بچوں کی تعلیم سے مشروط ہیں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں کمی کیوں نہیں کر سکے؟ تعلیم کے حق سے متعلق قوانین  پر مکمل عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا؟

حکومت کے مطابق اسکول سے باہر بچوں کے درمیان تفاوت کو کم کرنے کے لئے کئی اقدامات کیے گئے۔ تاہم، پاکستان میں لڑکوں کے مقابلے میں تقریباً 2 ملین زیادہ لڑکیاں سکول سے باہر ہیں، مجموعی طور پر اسکول جانے کی عمر کی 12 ملین لڑکیاں سکول نہیں جاتیں۔ چھٹی جماعت کے اختتام تک، اسکول چھوڑنے کی شرح لڑکیوں کے لئے 59 فیصد اور لڑکوں کے لئے 49 فیصد ہے، جو کہ ایک نمایاں فرق ہے۔

اقلیتی بچے

1998 کی مردم شماری کے مطابق اقلیتیں اوسط قومی شرح خواندگی سے 20۔ 11 فیصد تک پیچھے ہیں۔ پنجاب کمیشن برائے ٗ حقوقِ نسواں کے 2017 کے سماجی اور معاشی بہبود کے سروے میں بھی یہ ظاہر ہوا ہے کہ صوبے میں اقلیتی خواتین خواندگی میں اوسط ( 48.4 ) سے 12.2 فیصد پیچھے ہیں۔ خواندگی کی کم شرح کو عائد کردہ نصاب اور تعلیمی نظام میں مذہبی امتیاز سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر وفاقی اور صوبائی تعلیمی اداروں میں زیر استعمال نصابی کتب میں انگریزی، اردو، جنرل نالج، معاشرتی علوم، مطالعہ پاکستان اور تاریخ سمیت لازمی مضامین میں 30۔ 40 فیصد تک اسلامی مواد شامل ہوتا ہے۔ جو کہ آئین کے آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت نے اقلیتی طلباء کے لئے اسلامیات کے متبادل کے طور پر ان کی دینی تعلیم کی نہ تو ابھی تک کتابیں چھاپی ہیں اور نہ ہی اساتذہ کی دستیابی یقینی بنائی ہے۔ حکومتی رپورٹ اس بات پر بھی خاموش ہے کہ پیشہ ورانہ کالجوں میں داخلہ کے لئے اور پبلک سروس کمیشن وغیرہ کے ذریعے ملازمت کے لئے مسلم طلباء کو حافظ قرآن ہونے کے 10۔ 20 نمبر دیے جاتے ہیں۔ کیا حکومت نے اقلیتی طلباء کے لئے اس کا کوئی متبادل سوچا ہے؟

رپورٹنگ پیریڈ میں قومی کمیشن برائے اقلیت کے قیام کا بھی دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ حقیقت میں نوے کی دہائی سے بے کار قسم کے قومی کمیشن برائے اقلیت کا قیام نوٹیفیکیشن کے ذریعے عمل میں آتا رہا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے مخصوص مطالبے، قانون سازی کے ذریعے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کے مطالبے پر پارلیمان میں کچھ مسودہ بل پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اقلیتوں کے شدید تحفظات ہیں۔ اقوام متحدہ کے پیرس پرنسپلز کے مطابق، پارلیمان کے ایکٹ کے ذریعے ایک موثر اور خود مختار قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کب تشکیل پائے گا؟

22 ستمبر 2013 کو آل سینٹس چرچ پشاور میں جڑواں خود کش حملہ ہوئے جن میں 200 کے قریب لوگ ( 83 ہلاکتیں 100 +سے زائد زخمی، بشمول بچے ) براہ راست متاثر ہوئے۔ وفاقی حکومت نے خیبر پختونخواہ حکومت کو 20 ملین روپے متاثرین میں منتقل کرنے کے لئے دیے۔ کے پی حکومت نے Rehabilitation of Minorities (Victims of Terrorism) Endowment Fund Act، 2020 نافذ کیا اور رقم مستقبل میں دہشت گردی کا شکار اقلیتوں کے لئے رکھ لی۔ حکومتی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ 2013 میں آل سینٹس چرچ پشاور میں ہونے والے خود کش حملوں کے متاثرین کو دس سال گزرنے کے بعد بھی معاوضہ کیوں نہیں دیا گیا؟ ریٹائرڈ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے 2014 کے اقلیتی حقوق کے فیصلے  پر گزشتہ ایک دہائی میں عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟

ریاست کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم آئینِ پاکستان میں آرٹیکل 91، 41 اور دیگر کئی امتیازی قوانین ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان میں آئینی امتیاز کے خاتمے کے لئے کیے گئے کسی بھی اقدام کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

ریاستی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان اہانتِ دین کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے پوری طرح  پُر عزم ہے۔ رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے کہ ملک میں جاری اہانتِ دین کے قوانین کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال سے بچے ذہنی، جسمانی اور معاشی طور پر شدید متاثر ہوتے ہیں جب غلط پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے، ان کے یا ان کے خاندان کے افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں، ان کے محلوں اور بستیوں پر ہجوم حملے کرتا ہے یا بچوں کو ہجومی حملوں میں استعمال کیا جا تا ہے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایک محتاط اندازے کے مطابق 57 طلباء اور اساتذہ کو اہانتِ دین کے مقدمات میں ملوث کیا گیا جن میں سے کم از کم دس کو صرف ملزم ہونے پر ہی قتل کر دیا گیا۔ ریاست نے بچوں کو مذہبی اور فرقہ ورانہ تشدد اور جڑانوالا، سرگودھا اور سوات جیسے حملوں سے بچانے کے لئے کیے گئے اقدامات کا ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی جارحیت اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں استعمال کرنے کے لئے بچوں کی بھرتیوں کو روکنے کے لئے کیے گئے اقدام کی نشاندہی کی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے پاکستان سے اپنی اکتوبر 2022 کی کمیونیکیشن میں اور اس پر جولائی 2023 کی یاد دہانی پھر اپریل 2024 کی یاد دہانی میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچیوں کے اغواء، جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادیوں میں مبینہ اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اس عمل کو روکنے اور متاثرین کے لئے انصاف کو یقینی بنانے کے لئے فوری کارروائی پر زور دیا ہے۔ تاہم ریاستی رپورٹ اس پر خاموش ہے۔ مجریہ پاکستان کی دفعہ 498۔ بی کے تحت اقلیتی لڑکیوں سے جبری شادی کے متعلق کتنے مقدمات درج کیے گئے؟ اقلیتی لڑکیوں کے جبری مذہب کی تبدیلی کے کتنے مقدمات میں انصاف ملا؟

پیدائش کا اندراج

حکومتی رپورٹ کے مطابق نادرا نے پیدائش کے اندراج کو بڑھانے کے لئے ملک بھر کی تمام مقامی حکومتوں میں سول رجسٹریشن مینجمنٹ سسٹم متعارف کروایا ہے۔ تاہم رپورٹ میں لڑکیوں اور لڑکوں کی رجسٹریشن کے درمیان تفاوت کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ جب پاکستان میں لاکھوں بچے رجسٹرڈ نہیں ہیں تو ان کے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جسمانی سزا

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہICT Prohibition of the Corporal Punishment Bill 2021 بچوں پر جسمانی سزا پر پابندی لگاتا ہے کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2020 میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 89 کو معطل کر دیا تھا۔ The Sindh Prohibition of Corporal Punishment Act، 2016 بھی جسمانی سزا کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ تاہم ریاست نے پانچویں میعادی رپورٹ  پر دی گئی سفارشات کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 89 کو منسوخ نہیں کیا جو بچوں پر جسمانی سزا کا جواز مہیا کرتی ہے۔

غیرت کے بہانے قتل

ریاست رپورٹ کرتی ہے کہ فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 2016 کو پاکستان پینل کوڈ 1860 اور ضابطہ فوجداری 1898 میں ترمیم کرنے کے لئے نافذ کیا گیا ہے تاکہ غیرت کے بہانے جرائم کو روکا جا سکے۔ رپورٹ میں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ رپورٹنگ پیریڈ میں غیرت کے نام پر کتنی بچیوں کا قتل ہوا؟ اس مدت میں کتنے مجرموں کو سزا دی گئی؟ کیا 2012 کا Acid Control and Acid Crime Prevention Act تمام صوبوں پر لاگو ہوتا ہے اور عملی طور پر اس کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟

بچوں سے جنسی بد سلوکی

ریاست کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو بچوں سے جنسی بد سلوکی اور ان کے جنسی استحصال کی تشریح کرتے ہیں اور ان کی ممانعت کرتے ہیں۔ تاہم غیر سرکاری تنظیم ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 کے دوران روزانہ 10 سے زیادہ بچوں کے ساتھ جنسی بد سلوکی ہوئی ہے۔ اس طرح سال 2020 کے مقابلے میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے بچوں کے ساتھ جنسی بد سلوکی کے بارے میں اپنے اعداد و شمار بیان نہیں کیے ہے۔ اگر ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے تو اس پر کیا کارروائی کی گئی؟ کتنے مجرم پکڑے گئے اور کتنوں کو سزا ہوئی؟

آپشنل پروٹوکولز

آخر میں رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے نومبر 2016 میں مسلح تصادم میں بچوں کی شمولیت سے متعلق اختیاری پروٹوکول کی توثیق کی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کہ ریاست بچوں کے حقوق کے میثاق کے اختیاری پروٹوکول مواصلات کے طریقہ کار پر کب دستخط کرے گی اور کب اس کی توثیق کرے گی؟

مزید برآں Optional Protocol on the Sale of Children، Child Prostitution، and Child Pornography پر پاکستان کی ابتدائی رپورٹ نومبر 2020 میں کمیٹی کو پیش کردی گئی۔ تاہم Optional Protocol on the Involvement of Children in Armed Conflict کی ابتدائی رپورٹ جمع کروانے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جبکہ اس کی توثیق 2016 میں کی گئی تھی۔

مزید کیا؟

سول سوسائٹی کی طرف سے لسٹ آف ایشوز جمع کرانے کی آخری تاریخ 12 اگست 2024 تھی۔ سول سوسائٹی جولائی 2025 کے آس پاس متبادل/ شیڈو رپورٹس کمیٹی کو جمع کروا سکے گی۔ کمیٹی کی طرف سے جائزہ ستمبر، اکتوبر کے آس پاس متوقع ہے۔ فی الحال، پاکستان کی رپورٹ پر کئی سوالات، اس میں آدھے سچ اور بے جا دعوے ہیں۔ کمیٹی کے ریویو پراسیس کو بامعنی اور موثر بنانے کے لئے ان پر توجہ دینے کی ازحد ضرورت ہے۔ شاید کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ اختتامی مشاہدات اور سفارشات پر فوری اور ٹھوس مثبت اقدامات پاکستان میں بسنے والے لاکھوں بچوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے میں مدد دے سکیں۔

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری ہیں۔”تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading