پرانے عہد نامے میں شاگردیت کا تصور
یُوں توشاگردیت کا تصور پُوری بائبل میں پایا جاتا ہے مگر پرانے عہد نامے کی نسبت نئے عہد نامے میں اصطلاح شاگرد زیادہ کثرت سے استعمال ہوئی ہے۔ تاہم شاگرد اوراستاد کے رشتے کی کئی مثالیں ہمیں پرانے عہد نامے میں بھی ملتی ہیں۔ یشوع موسیٰ کا شاگرد تھا جس نے اپنے استاد کے مشن کو جاری رکھا اور قوم اسرائیل کو وعدہ کی ہوئی زمین تک پہنچایا۔ سموئیل عیلی کا شاگرد تھا اور خدا کا ایک عظیم نبی بن کراُبھرا۔ الیشع ایلیاہ کا شاگرد تھا اور اپنے استاد کی نَسبت دُونا مسَح پایا۔سلاطین کی کتاب میں متذکرہ انبیا زادوں سے مرا د الیشع کے شاگرد ہیں۔ یسعیاہ کے شاگرد اس سے تعلیم پانے اور اس کی رہنمائی میں تحریر کے کام میں شریک تھے۔ پرانے عہد نامہ میں اصطلاح شاگرد نہ صرف انسانی استاد سے سیکھنے والوں کےلئے استعمال ہوئی ہے بلکہ یہواہ خُدا کی پیروی کرنے اور اس کے پیغام ا ور تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے والوں کو یہواہ کے شاگرد کہا گیا ہے۔ یہ لوگ خُداکے مکاشفے یعنی اس کی نبوت، شریعت اور حکمت کو دوسروں تک پہنچانے میں مصروف ِ عمل تھے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پرانے عہد نامہ میں شاگرد سے مراد تعلیم پانے والا اور پھر اس تعلیم کو دوسروں تک پہنچانے والاہے۔
یُونانی اور رومی تہذیب میں شاگردیت کا تصور؛
یسوع مسیح کے آنے سے پہلے یونانی ثقافت میں موجود فلسفیوں میں بھی استاد اور شاگرد کا تصور موجود تھا۔ یونانی زبان میں شاگرد کیلئے اصطلاح میتھیٹس (Mathetes) استعمال ہوئی ہے۔ یونانیوں کے نزدیک یہ اصطلاح تین معنوں میں استعمال ہوتی تھی۔ اول ، عام معنوں میں میتھیٹس سے مراد سیکھنے والا تھا۔ دوئم، تکنیکی معنوں میں میتھیٹس کسی عظیم استاد کی تعلیم یا نظریات سے
وابستہ شخص کو کہا جاتاتھا۔ سوئم، رسمی معنوں میں میتھیٹس سے مراد کسی خاص تعلیمی گروہ یا مکتب ِ فکر کا طالب علم ہونا تھا۔ مثلاً فسطفی فلسفی گروہ کے رکن طالب علموں کو میتھیٹس یعنی شاگرد کہاجاتا تھا۔ اس لئے مشہور فلسفی سقراط اپنے پیروکاروں کےلئے اصطلاح میتھیٹس یا شاگرد استعمال کرنے سے گریز کرتا تھا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ ان کا تعلق فسطفی گروہ سے ہے۔
نئے عہد نامے میں شاگردیت کا تصور؛
یونانی تہذیب کے اثر کے باعث یسوع مسیح کے زمانے میں بھی اصطلاح شاگرد عام طور پر رائج تھی۔شاگرد کی اصطلاح سے دو قسم کے معنی لئے جاتے تھے۔ پہلا ، عام معنوں میں سیکھنے والا۔ دوسرا ، خاص معنوں میں اپنے استاد کے پیچھے چلنے والا، اپنے استاد سے جڑا ہوا، اس سے وابستہ ، چپکاہوا، اس کی خدمت میں اس سے سیکھ کر اس کے ساتھ شریک ہونے والا۔ صرف علم نہیں بلکہ عمل میں اپنے استاد کے ساتھ شریک اور وابستہ رہنے والا شاگرد کہلاتا تھا۔
مسیحی شاگردیت کیا ہے؟
مسیحی شاگردیت کی بُنیاد یسوع مسیح کی بلاہٹ ہے؛
متی 4باب 17سے 22 آیات کی روشنی میںشاگرد بننا یسوع مسیح کی پُر فضل بُلاہٹ کی بدولت ہے۔ وہ ہمیں چنتا اور بلاتا ہے ۔اس کی بلاہٹ کو قبول کر کے یسوع پر ایمان لانے کے وسیلے سے ہم اس کے شاگرد بنتے ہیں۔ شاگرد بننا ہماری قابلیت ، صلاحیت اوراہلیت کے سبب نہیں بلکہ خدا کے فضل ، مہربانی اور رحم کے باعث ہے ۔شمعون پطرس ، یعقوب اور یوحنا کو یسوع نے ان کی لیاقت کے سبب سے نہیں بلکہ اپنے فضل کے باعث بلایا۔ وہ مچھیرے تھے ، ان سے بد بو آتی تھی ، وہ ان پڑھ تھے، بہت زیادہ مالدار بھی نہ تھے لیکن یسوع نے انہیں اپنے شاگرد ہونے کی بلاہٹ کا اعزاز بخشا۔ انہوں نے اس بلاہٹ کے جواب میں ہاں کہا۔مخصوص شدہ خادم ہونے کی بلاہٹ چند لوگوں کےلئے ہے لیکن شاگرد ہونے کی بلاہٹ تمام انسانوں کےلئے ہے۔ یسوع مسیح سب کو بلارہا ہے۔ وہ پکا رہا ہے ، اے میرے بیٹے توکہاں ہے؟ اے میری بیٹی تو کہاں ہے؟
یسوع کا شاگرد ہونے کی بُلاہٹ بائبل میں نجات کی کہانی کی تاریخ کا تسلسُل ہے۔ خدا شروع ہی سے انسانوں کو اپنی پیروی کیلئے بلا رہا ہے۔ جب آدم گناہ میں گرا تو اس نے اسے پکارا، اے آدم تو کہاں ہے؟ جب دُنیا گناہ میں گر گئی تو اس نے نوح کو بلایا کہ دُنیا اس کی منادی پر توبہ کے وسیلہ سے بچ جائے۔ سیلاب کے بعد کی دُنیا کو اُمید دینے کےلئے خدا نے ابرہام کو بلایا کہ وہ اس کے پیچھے چلے اور اس کے وسیلے سے دُنیا کے تمام گھرانے نجات پائیں۔ جب ابرہام کی نسل قوم اسرائیل غلامی میں چلی گئی توخدا نے موسیٰ کو بلایا کہ وہ انہیں مصر کی غلامی سے رہائی میں رہنمائی دے۔ مصر کی غلامی سے رہائی کی بلاہٹ نہ صرف موسیٰ کی شخصی بلاہٹ تھی بلکہ قوم اسرائیل کی اجتماعی بلاہٹ بھی تھی کہ وہ یہواہ خُدا پر ایمان لا کر بیابان میں اس کے پیچھے چلیں،اس کے شاگرد بنیں، اس کی پیروی کریں اور اس سے سیکھیں۔ اسرائیل کی بقیہ تاریخ میں بھی خدا انفرادی اور اجتماعی طورپر انسانوں کوبلاتا رہا ہے۔ وہ اپنا بُلاوہ اپنے نبیوں اور اپنی شریعت کی تعلیمات کے ذریعے سے دیتا رہا ہے۔ بالآخر خدا نے خود کو اپنے بیٹے اور مجسم کلمے یسوع مسیح میں ظاہر کیا جس نے پکار کر کہا ابن آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے (متی18:11)۔ وہ آج بھی تلاش کر رہا ہے ، پکا رہا ہے ،بلا رہا ہے کہ بھٹکا ہوا انسان ، گناہ میں پھنسا ہواآدمی، ابلیس اورموت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی انسانیت اس کی بلاہٹ کی پکار کو قبول کر لیں۔
متی4:18میں ذکر ہے کہ یسوع نے اپنی منادی کا آغاز توبہ کی بُلاہٹ سے کیا۔ توبہ کا مطلب شیطان کے پیچھے چلنے ا ور اس کی رہنمائی پر عمل کرنے کی بجائے یسوع کے پیچھے چلنا اور اس سے سیکھناہے۔ گناہوں سے توبہ کے عمل سے مسیحی شاگردیت کا آغاز ہوتا ہے۔توبہ کےلئے نئے عہد نامے میں یونانی زبان کا لفظ ”میٹانویا“ استعمال ہواہے جس کا مطلب ”راہ یا سمت بدل لینا“ہے۔ مسیحی شاگردیت یہ ہے کہ جب یسوع کی بلاہٹ کی پکار انسان کے کانوں تک پہنچے تو وہ بدی اور تاریکی کی پرانی راہ کوترک کرکے راستبازی اور نُور کی نئی راہ پر چلنا شُروع کردے۔انسان کا گناہ اور نافرمانی کی روِش چھوڑ کرایمان اور فرمانبرداری کی راہ کا تعین کرلےنا توبہ ہے۔ توبہ مسیحی شاگردیت کا آغاز اور یسوع مسیح کی بُلاہٹ پر ہاں کا اعلان ہے۔ توبہ کرکے انسان یسوع کی راہ پر چلنا شُرو ع کرتا ہے ۔ یسوع سچائی اور زندگی کی ایسی راہ ہے جس کے وسیلے سے ہم باپ کے پاس آتے ہیں۔ حقیقی شاگردیت یسوع کی بلاہٹ میں ہے اور شاگردیت کی اصل روح یسوع کی راہ پر چلنے میں ہے۔ پہلی صدی میں شاگردوں کی بُلاہٹ کی طرح وہ اِکیسویں صدی کے انسان سے بھی کہہ رہا ہے ،میرے پیچھے ہو لے۔ یسوع کے پیچھے ہو لینے سے مراد ہے اس کے پیچھے چلنا، اس کاشاگرد بن جاناہے جس کے نتیجے میں انسان کی زندگی یسوع کی زندگی کی عکاس بن جاتی ہے۔
مسیحی شاگردیت یسوع مسیح کی خاطر اپنی خودی کا انکار کرنا ہے؛
لوقا 18 باب 18 سے 22 آیات ؛ 25باب 14 سے 33 آیات، خودی کے انکار سے مراد ہے کہ شاگرد کی زندگی میں یسوع سے وفاداری کو پہلی ترجیح حاصل ہو اور وفاداری کایہ عہد کامِل طور پر نبھایاجائے۔مذکورہ بالا حوالے میں خودی سے انکارمیں اپنی ذات کا انکار، اپنے خاندان کا انکار اور اپنی دولت کا انکار شامل ہیں۔ یہ شاگردیت کی قیمت ہے ۔ خُودی کے انکار کا مطلب اپنی ذات ، خاندان اور دولت کو یکسر رد کردینا نہیں ہے بلکہ ان سب سے بڑھ کر یسوع کو اوّل درجہ دینا اوراپنی صلیب اُٹھا کر اُس کے پیچھے چلنا ہے۔ صلیب اٹھانے سے مراد ہے دُکھ اُٹھانا۔ صلیب یہاں دُکھوں کی علامت ہے۔ مسیح کےلئے اپنی ذات ،اپنے خاندان اور پیسے کو اوّلیت نہ دینے اور اس کی خاطر دُکھ اٹھانے سے مسیحی ایماندار شاگردیت کی قیمت اداکرتے ہیں۔ یہ حقیقت سمجھانے کےلئے یسوع مسیح دومثالیں دیتے ہیں۔
پہلی مثال فنِ تعمیرArchitecture کی دُنیا سے ہے۔ کوئی بھی بڑا تعمیراتی منصوبہ شروع کرنے سے پہلے لوگ اس کی لاگت یعنی بجٹ کا تخمینہ لگاتے ہیں۔ چاہے یہ کوئی گھر ہو یا بہت بڑی بلڈنگ ہو۔قدیم زمانے میں بادشاہ مینار تعمیر کیا کرتے تھے۔ ۷۲ئمیں ایک بہت بڑا تھیڑ گر گیا تھا جس کے نیچے پچاس ہزار لوگ آئے اور مر گئے۔ عمارت کے گر جانے یا اس کو مکمل نہ کرپانے سے عمارت تعمیرکرنے والے شخص کو نہ صرف ذاتی طور پرمایوسی ہوتی تھی بلکہ سماجی اعتبار سے اس کی عزت پر بڑا حرف آ جاتاتھا۔ ناکامی کے باعث اُس کی بے عزتی اور بد نامی ہوتی تھی۔ لوگ اس کی منصوبہ بندی اور پرکھ کی صلاحیت کا مذاق اڑاتے تھے۔ جس طور سے عمارت کی تعمیر کافیصلہ بہت اہم تھا اسی طرح یسوع کا شاگرد بننے کا فیصلہ بھی بہت اہم ہے۔ جِس طرح معمار کو تعمیر سے پہلے عمارت کی لاگت کا اندازہ لگاناضرُوری ہے اُسی طرح شاگرد کےلئے جاننا لازم ہے کہ وہ شاگردیت کی قیمت چُکانے کےلئے تیار ہے یا نہیں۔
دوسری مثال یسوع مسیح فوج اور جنگی منصوبہ بندی کی دُنیاسے دیتے ہیں ۔ جب یسوع مسیح یہ مثال دے رہے تھے تو اُسی دور میں ہیرودیس انتپاس بادشاہ نے ایک پڑوسی رومی حکمران سے جنگ میں شکست کھائی تھی۔اس لئے لوگ سیاسی حالات کے باعث واقف تھے کہ بغیر منصوبہ بندی کے لڑی جانے والی جنگیں انسانی جان و مال کےلئے کس قدر مہنگی اورنقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ یسوع مسیح انہیں بتا تے ہیں کہ اُن کا شاگرد بننا بھی ایک جنگ میں شریک ہونا ہے جس کی قیمت بہت مہنگی ہو سکتی ہے۔یہ رُوحانی جنگ ہے جِس کےلئے اچھی تیاری اور قیمت کی آگاہی دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ کلیسیا کی تاریخ میں بہت سے لوگوں نے مسیح کا شاگرد ہونے کےلئے قیمت ادا کی ہے۔ دو تحریک آمیز مثالیں درج ذیل ہیں؛۔
پالیکارپ کے غیر مُتزلزل ایمان کی گواہی؛
پالیکارپ ایشیائے کوچک کے شہر سمرنہ کابشپ تھا جو آج کل موجودہ ترکی کا شہر ازمیر کہلاتا ہے۔160ءمیں اسے رومی خداﺅں کی پوجا کے انکار اور مسیح کو خداوند ماننے کا اقرار کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔ اس کی عمر چھیاسی سال ہو چکی تھی اور وہ یوحنا رسول کا شاگرد رہ چکا تھا جس کی وجہ سے اسے بہت عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔ جب اسے شہر کے حاکم کے سامنے پیش کیا گیاتو حاکم نے اس سے کہا، ’مسیح کے نام پر ملامت کر یعنی اس کا ا نکار کر۔‘ پالیکارپ نے جواب دیا ، ’چھیاسی سال میں نے ا س کی خدمت کی ہے اور اس نے میرے ساتھ کبھی کوئی بُرائی نہیں کی ۔ میَں کیسے اپنے بادشاہ اور منجی کی توہین کر سکتاہوں؟‘ پالیکارپ کے انکار پر اس کے ہاتھ باندھ کر اسے آگ لگا دی گئی۔ جب آگ اُسے بھسم نہ کر سکی تو اُسے چھرا گھونپ کر شہید کر دیا گیا۔
پالیکارپ نے یسوع مسیح کا شاگرد ہونے کی قیمت اپنے خون سے ادا کی۔ جس طرح یسوع نے اسے بچانے کےلئے اپنی جان صلیب پر دے دی تھی اُسی طرح پالیکارپ نے مسیحِ مصلُوب کی گواہی کی خاطر خُود کو قُربان کردیا ۔
ہنری مارٹن کی تحریک آمیز جانثاری کا نمونہ؛
ہنری مارٹن ایک نوجوان مشنری تھا جو1807ءمیں برصغیر پاک و ہندمیں انجیل کی منادی کرنے کےلئے آیا۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی کاگریجوایٹ تھا۔ اُس نے ریاضی کے شعبے میں ایک کامیاب کیرئیر کو ترک کر کے انجیل کاخادم بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ سات سال ہندوستان اور ایران میں رہا ۔ اُس نے اُردو، عربی اور فارسی سیکھی۔ مقامی افراد کی مدد سے اس نے نئے عہدنامہ کا اُردو ترجمہ کیا۔نئے عہد نامے کے موجودہ اُردو ترجمے کی بُنیاد ہنری مارٹن کا کیا ہوا ترجمہ ہے۔ آج پاکستان، ہندُوستان اور دُنیا بھر میں اُردُو زبان بولنے والی کلیسیاﺅںمیںہنری مارٹن کا کیا گیا ترجمہ ایمانداروں کو خُدا کے کلام کے عِلم سے فیض یاب کرنے کا وسیلہ ہے۔1812ءمیں چُھٹیوں کےلئے انگلستان واپس جاتے ہُوئے شدید گرمی اور ٹی بی کی وجہ سے یہ نوجوان مشنری راستے میں جان بحق ہوگیا۔ اُسے ترکی میں دفن کیا گیا ۔ ہنری مارٹن نے زندگی کی آسائشوں کا انکار کیا اور مسیح کا شاگرد ہونے کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی۔ اُس کی جانثاری کلیسیائے پاکستان کے نوجوانوں کے لئے ایک تحریک آمیز چیلنج ہے۔
مسیحی شاگردیت تقاضاکرتی ہے کہ دوسروں کو یسوع کا شاگرد بنایا جائے (متی 18باب19 تا 28 آیات)؛
میَں نے اُوپر بیان کیا ہے کہ مسیح کی شاگردیت کی قیمت کِس قدر مہنگی اور بھاری ہو سکتی ہے۔ اِس راہ پر چلنا کس قدر دشوار ہوسکتا ہے۔ تاہم مسیح کا شاگرد ہونا ایک بہت بڑا اعزاز اور برکت بھی ہے۔ خدا اپنے پاک روح کے وسیلے سے مسیحی ایماندار کوتقویت اور تسلی بخشتا ہے۔ مسیحی شاگرد ہونے کے باعث آنے والے دُکھوں میں وہ ایماندارکو تنہا اوربے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔ وہ اپنی حضوری کی تسلی ، اپنے روح کی قوت ، اپنے کلام کا مکاشفہ اور اپنے جلال کا ظہور اپنے شاگرد کوبخشتا ہے۔ایسا اس لئے ہے کیونکہ مسیح کا شاگرد ہونا دراصل خدا کی بادشاہی کا رکن ہونا،ہمیشہ کی زندگی کاوارث ہونا اور خدا کے وعدوں میں شریک ہونا ہے۔ اس لئے ہر مسیحی کی بلاہٹ اور ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کو مسیح کا شاگرد بننے کی آسمانی برکتوں میں شریک ہونے کی دعوت دے۔ ہر مسیحی شاگرد کا یہ فرض ہے کہ وہ دوسروں کو یسوع مسیح کا شاگرد بنائے۔ خدا چاہتا ہے کہ ہر انسان ایسی با مقصد زندگی گزارے جوروحانی اطمینان ، دائمی تسلی اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید سے بھری ہوئی ہو۔
یہ زندگی مسیح یسوع پرایمان لا کر اس کا شاگرد بننے سے ملتی ہے۔ جب انسان اپنے گناہوں سے توبہ کر کے باپ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ لیتا ہے اورتاریکی کے قبضے سے چھوٹ کر خدا کی بادشاہی میںداخل ہوتا ہے تو مسیحی شاگرد یت کے سفر کا آغاز ہوجاتاہے۔ آج ہر مسیحی سے خدا کا سوال ہے۔ کیا آپ دوسروں کو مسیح کا شاگرد بننے کی برکت میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں؟ ایمانداروں کے لئے مسیح کا ارشادِاعظم دُوسروں کو کسی خاص چرچ یا فرقے کا ممبر بننے کی دعوت دینانہیں ہے۔ ارشادِاعظم کا تقاضا ہے کہ بھٹکے ہُوئے انسان کو مسیح کا شاگرد بننے کی دعوت دی جائے ۔ جُدا ہوتے ہُوئے کِسی بھی شخصیت کے آخری الفاظ نہایت اہم اور قیمتی ہوتے ہیں جِن سے اُس کے دِل کی شدیدخواہش اور گہری قائلیت کا اظہار ہوتا ہے۔یسُوع نے آسمان پر جانے سے پہلے اپنے شاگردوں کو مزید شاگِرد بنانے کاحُکم دیا۔ یسُوع کے دِل کی دھڑکن اور اُس کے رُوح کی تڑپ یہ ہے کہ کھوئے ہُوئے انسانوں کو خداوند کے پیچھے چلنے کا بُلاوہ دیا جائے۔ خدا چاہتا ہے کہ مسیح کا شاگرد ہونے کا اعزاز اور روحانی خزانہ سب قوموں یعنی نسلی گروہوں کے افراد کو ملے ، چاہے کوئی گورا ہو یا کالا ، مسیحی ہو یا مسلمان ، پنجابی ہو یا بلوچی ، ان پڑھ یا پڑھا لکھا ، غریب ہو یا امیر، مرد ہویا عورت ، خدا سب کو مسیح کا شاگرد ہونے کےلئے بلا رہا ہے۔ آپ کےلئے یہ چیلنج ہے کہ دوسروں کو یسوع کا شاگرد بنانے کی بلاہٹ پر عمل کریں۔
*******