پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان میں بطور ریاستی مہمان جناب ذاکر نائیک صاحب تشریف فرما ہیں۔ ذاکر نائیک خصوصاً پاک و ہند میں تقابلِ ادیان کے حوالہ سے مشہور شخصیت مانے جاتے ہیں وہ مذاہب کے تقابل کے حوالہ سے پچھلی ایک دو دہائی سے مصروفِ مشق ہیں اور بقول اُن کے وہ لاکھوں غیر مسلم کو دائرہ اسلام میں داخل کر چکے ہیں۔ مجھے بھی ان کے درجنوں لیکچر سننے کو موقعہ ملا ہے۔ ان کا کمال کا حافظہ ہے وہ نہ صرف قرآن و حدیث کو بحوالہ اپنی گفتگو میں کوٹ کرتے ہیں بلکہ دیگر ادیان میں سے ہندووں کی بھگوت گیتا اور رگ وید بھی بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں اس کے علاوہ بائبل کے حوالہ سے بھی ان کی معلومات قابلِ تحسین ہے۔ وہ اچھے بولنے والے ہیں اور کمال کا اعتماد رکھتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے وہ ملائیشیا میں پناہ گزین ہیں اور ان دنوں پاکستان میں بطور سرکاری مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں۔
ہمارا دیس بھی کیا خوب جگہ ہے یہاں جب بھی کوئی آیا یا تلوار لے کر یا پیغام لے کر آیا، کسی نے فتح کیا تو کسی نے فتوی دیا۔ موصوف کی سرکاری سطح پر بہت پذیرائی بھی کی گئی۔ عام آدمی سے لے کر ہمارے وزیر اعظم تک نے اُنہیں بانہوں اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ مطلب بہت خوب صورتی سے ویل کم کیا۔
پچھلی چند دہائیوں سے ہم نجانے کیوں اُلٹی دِشا مطلب اُلٹی سمت کو ہی چل رہے ہیں۔ یعنی بجائے کسی علمی، معاشی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے ایسی شخصیات کو دعوت و پناہ دیتے ہیں جو دنیا میں کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتے۔ یعنی کبھی انڈیا کو مطلوب لوگ تو کبھی امریکہ کو مطلوب لوگوں کو چیف گیسٹ کے طور پناہ دیتے ہیں اور پھر اس پر قائم بھی نہیں رہتے اور اپنے ایسے انتہائی مطلوب مہمانوں کو اپنے ہاتھوں پاک بوسہ لے کر پکڑوا بھی دیتے ہے۔
خیر ڈاکٹرصاحب پاکستان میں اوپن فورم سجھا رہے ہیں جس میں سوال و جوابات کا سلسلہ ہوتا ہے لوگ اپنی علمی اور عقلی استعداد کے مطابق سوالات کرتے ہیں اس میں عوام سے صاحبِ علم اور طالبِ علم تک لوگ ڈاکٹر صاحب سے دینی اور اخلاقی سوالات کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب ان سوالات میں بیش تر کے پس منظر کو سمجھے سوچے بغیر قرآن و حدیث یا پھر سوالات کی نوعیت کے مطابق مطلقہ مذہب کی دینی کتب کے حوالہ کے ساتھ جواب دیتے ہیں اب اس سوال کی کوئی علمی و عقلی دلیل ہو یا نہ ہو لیکن اس پر ضمنی سوال کی پابندی عائد کی صورت میں سخت گیر رویہ بھی اپنایا جاتا ہے۔ حالاں کہ ان جیسا کوئی صاحبِ علم تحمل سے سوال سنتا ہے اور تحمل سے جواب دیتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب پاکستان کے سرکاری اساتذہ کی طرح سوال کا جواب ڈنڈے سے دیتے ہیں۔ بصورت دیگر معافی منگوانے پر اَڑ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک بچی کے شادی کے حوالہ سے سوال پر عجیب جواب دیتے ہیں کہ جو عورت بروقت شادی نہیں کرتی وہ۔ ”بازاری عورت“ کہلاتی ہے۔ موصوف نے جواب کے ساتھ یہ اقرار بھی کیا کہ الفاظ سخت ہیں اور ساتھ انگریزی میں بھی بول دیا کے ایسی عورت ’’پبلک پراپرٹی ‘‘ سمجھی جاتی ہے۔ آپ جو کہنا چاہتے تھے وہ یا تو کہہ نہیں پائے یا پھر آپ کے نزدیک عورت کی محض یہی تعریف ہے حالاں کہ آپ ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور بخوبی جانتے ہی کہ دنیا کے ہر انسان کی اپنی ایک باڈی کیمسٹری ہے اور وہ اپنے میڈیکل کنڈیشن کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی لئے پسند نہ پسند سوچتا یا سوچتی ہے۔ بس یہ مسئلہ ہے جس میں جناب علم سے خالی اور معلومات سے بھر پڑے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس معلومات کے خزانہ ہو سکتا ہے لیکن علم کی قلت ہے۔ علم حکمت کو جنم دیتا ہے۔ اور احساس کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے جس کو سمجھنا کئی بار معلومات کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
جب آپ اُس بچی کو جواب دے رہے تھے تو آپ نے نہ سوال سمجھنے کی زحمت کی اور نہ سوال کا پس منظر ۔لہذا یہ تو ایک سوال کی بات ہے، آپ سے تو درجنوں سوالات کیے گئے اور اگر یہی سوالات پاکستان کے دیگر جید علما میں سے کسی کے ساتھ کیے جاتے تو شاید بچوں کو وہ جوابات مل جاتے جیسے انجینئر محمد علی مرزا صاحب، جاوید احمد غامدی صاحب جیسے عالم۔ باقی دعا گو ہیں کہ آپ کے اٹھائیس دن پورے ہوں اور آپ نہایت خوش و خرم ملائیشیا تشریف لے جائیں۔ خداوند تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: ’’تادیب‘‘کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ ’’تادیب‘‘ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******