دردِ ایسے چھپائے بیٹھا ہوں |
جیسے سب کچھ کمائے بیٹھا ہوں |
مَیں رقیبوں کے درمیاں رہ کر |
شمع اُس کو بنائے بیٹھا ہوں |
سر جھکایا نہیں ہے چوکھٹ پر |
آس مَیں بھی لگائے بیٹھا ہوں |
وہ حقیقت میں ڈھال سکتا ہے |
جو تصور بنائے بیٹھا ہوں |
مجھ پہ سکتہ نہیں ، مَیں آنکھوں میں |
اُس کی صورت سجائے بیٹھا ہوں |
بات سچ ہے کوئی کسی کا نہیں |
میں تو پھر بھی نبھائے بیٹھا ہوں |
میں بھی جاویدؔ ! دیکھ کر دُنیا |
چاک دامن بچائے بیٹھا ہوں |