عطا الرحمن سمن : ( You no tell I no Tell) یو نو ٹل آئی نو ٹل

فروری 2024ءمیں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی اتحادی حکومت ایک سال کے اندر 34فیصد کی سطح پر مہنگائی کو 5فیصد سے نیچے تک لانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اِس دوران سرکار کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ معاشی حالت خطرہ سے نکل جانے کی خبر تو ہم کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے ملی ہے۔ اِس سے قطع نظر کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت سے جیتی ہے تا ہم عام انتخابات 2024ءکے بارے تحریک ِ انصاف نے سنگین تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اِسے تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی قرار دیا تھا ۔ دوسری طرف مذکورہ انتخابات میں جس پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا گیا ہے اُس لحاظ سے تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن ٹربیونلز میں شکا یات کی درخواستیں جمع نہیں کروائی گئیں۔ گو انتخابات کے نتائج کے خلاف دی گئی درخواستوں میں دوبارہ گنتی کے بعد کئی جگہوں پر مسلم لیگ کے امیدوار ہی جیتے قرار پائے ہیں تا ہم عوام کی ایک بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر پیش کئے گئے بیانیہ پر یقین ر کھتی ہے۔

اُدھر سال 2022ء میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے ہاتھ دھونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے جو بھی قدم اٹھایا ہے اُس کے ذریعے وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا موقف رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے اور وہ صرف فوج سے بات کرے گی۔ تعجب ہے کہ جمہوری جماعت ہونے اور ملک میں جمہوری نظام اور عوام کی حق حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں کی بجائے صرف غیر سیاسی قوتوں سے بات کرنے جیسا سخت اور غیر جمہوری بیانیہ بھی جمہو ریت کے نام پر بیچنے میں کامیاب ہے۔ بہرحال 2022ءسے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو غیر ملکی سازش قرار دینے ، صوبائی حکومتوں کو ختم کرنے ، چیف آف آرمی کے تقرر کو روکنے کے لئے لشکر کشی کرنے ، دو صوبوں میں اپنی حکومتوں کا ختم کرنے ،9 مئی کے حملہ اور حالیہ نومبر 2024ء میں اسلام آباد پر چڑھائی جسے تمام پینترے ناکام ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت کے فوج کے ساتھ بات چیت کرنے میں مسلسل ناکامی کے بعد سال 2024ءکے اواخر تک پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہوگئی جو ایک مثبت پیش رفت تھی۔ ذرائع ابلاغ پر دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کی ابتدا پر بہت ستائش کرتے ہوئے اِن کی کامیابی اور ناکامی کے بارے اندازے لگائے جانے لگے۔

۔23دسمبر2024ءکو شروع ہونے والے مذاکرات تین راؤنڈ کے بعد تعطل کا شکار ہو گئے ۔ پاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات جاری رکھنے کے لئے 9مئی 2023ءاور 26نومبر2024کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن تعینات کرنے کی شرط عائد کر دی ۔ پی ٹی آئی کا بنیادی مطالبہ فروری2024ءکے انتخابات کی عدالتی تحقیقات کر کے عوامی مینڈیٹ چرانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لا نا تھا ۔ دوسری طرف معلوم ہوا ہے کہ حکومت 2024ءمیں ہونے والے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے ساتھ ساتھ
انتخابات 2024ءکے ہمراہ 2018ءمیں ہونے والی دھاندلی اور2014ءمیں پی ٹی آئی کی جانب سے دئےے جانے والے دھرنے کی تحقیقات کو بھی شامل کرنے کی تجویز دے ڈالی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کے اِس پینترے کے بعد یہ کہہ کر کہ حکومت مذاکرات کے لئے سنجیدہ نہیں ہے پی ٹی آئی نے ڈائیلاگ سے پیچھے ہٹنے کا اعلان کر دیا۔

سرکاری تجویز کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے پیچھے ہٹنے پر ایک افریقی سیاہ فام چرواہے کا واقعہ یاد آ گیا جو اپنی گود میں ایک نو زائیدہ بچہ اٹھائے ہوئے تھا۔ وہ سیدھاچرچ کے لان میں بیٹھے فادر کے پاس گیا اور اُس کے سامنے اپنا بچہ ڈال کر بولا ، سنبھالو اپنے بچے کو۔ فادر اچانک اِس حملہ سے پریشان ہوا پھر سیاہ فام سے نرمی سے بولا کہ یہ میرا بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تم اِس کے باپ ہو۔ افریقی نے کہا ، فادر ہمارے بچے سیاہ رنگت کے ہوتے ہیں ۔ یہ بچہ سفید فام ہے اور بستی میں صرف تم ہی سفید فام ہو۔ اپنا بچہ لو اور اِس بستی سے نکلو۔ فادر نے کہا ، یہ خدا کی مرضی ہے۔ بچے کی رنگت کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر افریقی کوئی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اچانک فادر کی نظر اُس کی بھیڑوں پر پڑی ۔ فادر کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔فادر نے بھیڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیاہ فام افریقی سے پوچھا ۔ دیکھو ، یہ سب بھیڑوں کی رنگت سفید ہے ۔ مگر اِن میں ایک بھیڑ کا بچہ سیاہ رنگت کا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ افریقی سٹپٹا گیا ۔ پھر بچہ اٹھا کر واپس مڑتے ہوئے بولا

۔( You no tell I no Tell)       ’’یو نو ٹل آئی نو ٹل 

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading