ریاست ، تلوار اور اقلیتیں : خالد شہزاد

۔1995 میں لاہور ہائی کورٹ میں گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے تین بھٹہ مزدوری پر توہین رسالت کے مبینہ الزام میں ضمانت کی درخواست کی گئی، وکیلِ صفائی ملک پاکستان میں غریبوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف مؤثر اور دبنگ کی آواز محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ تھیں جو کسی بھی کیس کو آئین وہ قانون اور انسانی حقوق کے پس منظر میں رکھ کر پوری تیاری سے کورٹ میں پیش ہوتیں، اِسی مقدمہ میں بھی وہ کم عمر اور ان پڑھ سلامت مسیح، رحمت مسیح اور منظور مسیح کی طرف سے پیش ہوئیں۔ مدعی مقدمہ کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے اندر باہر ایک جمِ غفیر تھا جو نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرہ لگا رہا تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا” کہ جیسے کم عمر اور ان پڑھ سلامت مسیح اس کا باپ رحمت مسیح اور ان کا عزیز منظور مسیح اسلام اور مسلمانوں کے قلعہ پاکستان میں بہت بڑی جنگ کا آغاز کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کوخدانحواستہ خطرہ لا حق ہو گیا ہو۔ توہینِ رسالت کے مبینہ الزام میں لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد تینوں ملزمان کو جب واپس گوجرانوالہ لے جایا جا رہا تھا تو ناصر باغ لاہور کے قریب منظور مسیح پر جان لیوا حملہ ہوا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا اس کے بعد فضا فلک شگاف نعرۂ تکبیر سے گونج اُٹھی۔ اگلے روز کورٹ رپورٹروں کی جانب سے شہ سرخی لگی “ کہ شاتمِ رسول کو جہنم واصل کر دیا گیا۔ سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو اگلی پیشی پر لاہور ہائی کورٹ کے جج عارف اقبال بھٹی کی عدالت میں پیش کیا گیا، دونوں جانب دلائل سننے کے بعد جسٹس عارف اقبال بھٹی اور ساتھی ججوں نے ان دونوں کو مقدمہ سے بری کر دیا۔ اگلے روز اخباروں میں جسٹس عارف اقبال بھٹی اور محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ پر احمدی ہونے کا الزام لگایا گیا اور جسٹس عارف حسین بھٹی کے سر کی قیمت مقرر کر دی گئی جن کو 1997 میں قتل کر دیا گیا اس کے بعد ٹرائل کورٹ ہو یا سیشن جج یا ایڈیشنل جج یا ہائی کورٹ کا جج ہو کوئی بھی توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کے مقدمہ میں ملوث ملزمان کی ضمانت یا مقدمہ کا فیصلہ کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں اور سب جانتے ہوئے بھی کہ ملزمان بے گناہ ہیں مگر وہ ان شدت پسند تنظیموں کے دباؤ میں آ کر ٹرائل کورٹ کی سزاؤں کو برقرار رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بے گناہ ملزمان برسوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے انصاف کو ترستے ہیں، مشہور زمانہ آسیہ بی بی کے کیس میں اُنہی شدت پسند تنظیموں کی ذہن سازی کی بدولت سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اس کے سیکورٹی گارڈ نے اسلام آباد میں گولیاں مار کر قتل کرکے بڑے فخریہ انداز میں میڈیا کو بیان دیا “ کہ اس نے ایک بد بخت کو جہنم واصل کر دیا ہے۔”اسی طرح سابق وزیر مملکت برائے انٹرفیتھ ہارمنی شہباز بھٹی کو بھی اس کے گھر کے قریب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ 2014 میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدرات نیشنل ایکشن پلان بنایا تاکہ مملکت خداداد میں امن ہو اور اقلیتیں بغیر کسی خوف کے ملک کی خدمت میں اپنا کردار ادا کرتیں رہیں تاکہ ہر مکتبہ فکر اور ہر مذہب کے پیرو کاروں کو آزادی حاصل ہو، فرقہ واریت کا خاتمہ ہو اس مقصد کے لیے 20 نکاتی قرار داد متفقہ طور سے منظور ہوئی جس میں سے چند ایک کی نشان دہی کیے دیتا ہوں؛
۔ملک میں عسکریت پسند تنظیموں کو اُبھرنے اور کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
۔ نعفرت، فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر، اخبارات اور رسائل کے خلاف سخت کاروائی ہو گی۔
۔مذہبی ظلم و جبر کے خلاف موثر اقدام کرنا۔
۔پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی تشہیر پر پابندی ہو گی۔
۔دہشت گرد اور دہشت گرد تنظیموں کے مالی معاونت اورنٹ ورک کو توڑنا۔
۔ مدارس کی رجسٹریشن کو یقینی بنانا۔
مندرجہ بالا اقدامات کو اگر سابقہ حکومت سنجیدگی سے لیتی یا موجودہ حکومت ہی سنجیدگی سے اس بات کا نوٹس لے کہ اور موثر اقدام کرے تو کسی بھی عسکریت پسند تنظیم یا شخص کی جرأت ہی نہیں کہ مملکت کے اہم ستون ، چیف جسٹس کے سر کی قیمت لگائے۔ آج اگر حکومت نے اپنا سر مٹی کے اندر دے دیا تو یاد رکھیں ،کل کسی بھی وزیر اعظم کے سر کی قیمت مقرر کی جائے گی، ماضی میں جج، صحافی ان شدت پسند تنظیموں کے خوف یا مذہبی لگاؤ کی بدولت اُن کے آلہ کار بن کر اُن کے ہر کارنامہ پر آنکھیں موند لیتے جس کی وجہ سے آج ملک پاکستان کے چیف جسٹس کو جان کے لالے پڑگئے وہاں حکومت اور اپوزیشن والے اپنی اپنی گردن بچانے کی خاطر ایک ایسی جماعت کی مخالفت سے چشم پوشی کر رہے ہیں جو پورے ملک میں بسنے والے اقلیتوں بلکہ ججوں اور صحافیوں کے لیے بھی خوف کی علامت ہے۔ سابقہ اَدوار میں بھی عدلیہ پر دباؤ بڑھانے کی ایک واضع وجہ ہے کہ عدلیہ سے اپنی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے کروائے جائیں۔
یاد رکھیں ! آج جج، صحافی اور سیاست دان مل کر اس ملک سے ان شدت پسندوں کے خلاف اکھٹے ہو کر اپنے بچوں کو خوف سے باہر نکالیں ورنہ آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسئ کے سر کی قیمت مقرر کی گئی ہے تو کل کسی صحافی،سیاست دان کی باری بھی آ سکتی ہے کیوں کہ اقلیتوں پر تو پہلے سے ہی خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔محبی جاویدؔ ڈینی ایل کا یہ شعر انہی حالات کا عکاس ہے؛
ایک الزام نے سر اُٹھایا بہت
ایک تلوار سر پر لٹکتی رہی

نوٹ: ’’تادیب‘‘کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ ’’تادیب‘‘ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading