وہ حسبِ معمول تیز تیز پیڈل مارتے ہوئے چلا جا رہا تھا- اچانک اس کی بائیسکل روک لی گئی۔
” پہلے ہی فیکٹری سے لیٹ ہو رہا ہوں” اس نے بے بسی سے سوچا
“کیوں روکا بھائی” وہ ہجوم کے تیور دیکھ کر خوفزدہ سا ہو گیا-
اچانک ایک تھپڑ اس کے گال پر پڑا جس کے زور نے اس کی گردن گھما کے رکھ دی۔ ایک شخص بائیسکل کے کیریئر سے ٹفن باکس کھول رہا تھا۔
” رمضان میں روٹی لے کر جا رہے ہو ۔۔۔۔ روزہ خور۔۔۔”
ایک تھپڑ اور ۔۔۔۔
“بھائی میں تو۔۔۔”
کسی خوف سے وہ رک گیا
“ہاں بول بول تو تو۔۔۔؟
” میں بیمار ہوں” مشکل سے اس کے منہ سے نکلا
” بیمار ہے تو گھر بیٹھ، یوں سرعام روٹی لے کر کیوں جا رہا ہے۔ رمضان کا کوئی احترام نہیں تیرے دل میں؟
بھائی معاف کر دو ۔ میں بیمار ہوں” وہ منمنایا
“دفع ہو جا ۔ ۔ ۔ “یہ سنتے ہی وہ بھاگا –
دل ہی دل میں خداوند کا شکر ادا کرتا رہا۔
کہیں اس کے منہ سے اگر یہ نکل جاتا کہ میں مسیحی مذہب سے ہوں تو خدا جانے کیا ہوتا۔
۔۔۔(“کہانی چل رہی ہے ” سے ایک مائکروف)۔۔۔
*******
سرِعام روٹی : شہزاد نیر
