تعارف
پاکستان کی اقلیتیں، جن میں مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی، بہائی اور دیگر مذہبی گروہ شامل ہیں، ملک کے قیام سے ہی اپنے سیاسی اور آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ سن دوہزار سے پہلے اقلیتیں ایک جداگانہ انتخابی نظام کے تحت اپنے نمائندے خود چنتی تھیں، مگر ایک صدارتی حکم نامے کے تحت یہ نظام ختم کر دیا گیا، اور انہیں مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندگی دی گئی، جس میں نمائندے نامزد کیے جاتے ہیں، منتخب نہیں۔
جداگانہ انتخاب کا قانونی پس منظر؛
جداگانہ انتخاب کا آغاز 1956 کے آئین سے ہوا، اور اس کو 1962 اور 1973 کے آئین میں بھی برقرار رکھا گیا۔ اس نظام کے تحت اقلیتی ووٹر صرف اقلیتی امیدواروں کو ووٹ دیتے تھے۔
آئین 1973 کی شق 51(4) کے تحت اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی گئیں، اور ان کے لیے جداگانہ انتخاب کا طریقہ وضع کیا گیا۔
۔ کے تحت اقلیتوں کو جداگانہ بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ Representation of the People Act, 1976
۔ اقلیتیں اپنے نمائندے خود ووٹ دے کر چنتی تھیں، جس سے ان کو اصل سیاسی خودمختاری حاصل تھی۔
۔2002 کا ایگزیکٹو آرڈر اور تبدیلی
سن 2002 میں جنرل پرویز مشرف کے ایک صدارتی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت جداگانہ انتخابی نظام ختم کر دیا گیا اور اقلیتوں کو عمومی (مین سٹریم) ووٹر فہرستوں میں شامل کر دیا گیا۔
۔ اب اقلیتی ووٹر عام امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔
۔ اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پارٹی لسٹ کے ذریعے نامزدگی کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔
۔ نتیجہ یہ کہ اقلیتی نمائندے عوامی حمایت سے محروم ہو گئے اور صرف سیاسی جماعتوں کے مرہونِ منت بن کر رہ گئے۔
اقلیتوں کے آئینی حقوق
اقلیتوں کے حقوق آئین پاکستان کے درج ذیل آرٹیکلز میں واضح کیے گئے ہیں؛
۔ آرٹیکل 20: مذہبی آزادی
۔ آرٹیکل 25: مساوات اور امتیاز سے پاک سلوک
۔ آرٹیکل 36: ریاست کی ذمہ داری کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
اگرچہ یہ دفعات اقلیتوں کے مذہبی، سماجی اور شہری حقوق کی بات کرتی ہیں، لیکن سیاسی خودمختاری اور نمائندگی کے بارے میں خاموش یا محدود ہیں۔
جداگانہ انتخاب دوبارہ کیسے رائج ہو؟
جداگانہ انتخاب کو دوبارہ رائج کرنے کے لیے مندرجہ ذیل قانونی اور آئینی اقدامات درکار ہیں؛
۔1. آئینی ترمیم؛
۔ آرٹیکل 51 اور 63 میں ترمیم کر کے جداگانہ انتخابات کی شقیں دوبارہ شامل کی جائیں۔
۔2. الیکشن قانون میں ترمیم؛
میں ترمیم کر کے اقلیتوں کو ووٹر فہرستوں میں علیحدہ اندراج کی اجازت دی جائے۔ Election Act 2017
۔3. عدالتی رائے؛
۔سپریم کورٹ میں اقلیتوں کی جانب سے رِٹ دائر کی جائے کہ مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندگی آئینی برابری کے خلاف ہے۔
۔4. سیاسی اتفاقِ رائے؛
۔ سیاسی جماعتوں اور پارلیمان میں بین المذاہب و بین الجماعتی مکالمے کے ذریعے اس تبدیلی کی حمایت حاصل کی جائے۔
۔5. ریفرنڈم یا مشاورت؛
۔ قومی اقلیتی کمیشن یا اقلیتی برادریوں سے مشورہ لیا جائے کہ وہ کون سا نظام چاہتے ہیں۔
نتیجہ
اقلیتوں کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کا ایک مؤثر طریقہ جداگانہ انتخابی نظام کی بحالی ہے، جس سے نہ صرف ان کی سیاسی آواز مضبوط ہو گی بلکہ ان کی قیادت کو حقیقی نمائندگی بھی حاصل ہو گی۔ پاکستان کے آئین و قانون میں اس کے لیے گنجائش موجود ہے، بشرطیکہ سنجیدہ سیاسی اور قانونی کوشش کی جائے۔
*******