نئے جوتے ۔۔۔ : روبنسن سیموئیل گل

اب تو بقر عید میں مہینے سے بھی کم رہ گیا تھا۔ اس آبادی میں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ہر دوسرا گھر مہنگائی کے ہاتھوں تنگ تھا۔ نئے کپڑے خریدے، نئے جوتے خریدے،پڑوسیوں رشتے داروں اور دوست احباب کے ساتھ رکھ رکھاو نبھائے یا پھر قربانی کرکے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرے۔ مہنگائی کے اس دور میں قربانی کرنا بھی تو خالہ جی کا باڑا نہ تھا۔ اونٹوں بیلوں اور ویہڑوں کی قیمتیں تو لاکھوں میں تھیں جب کہ عام شخص کے لیے چھوٹا سا بکرا خریدنا بھی ناممکن بنا ہوا تھا۔ انسان اپنے لیے نئے جوتے کپڑے خرید لے تو حقوق العباد کا کیا ہوگا اور اگر اپنے وسائل سے غریبوں کی مدد کردے، انھیں اس عید پر نئے جوتے نئے کپڑے خرید دے تو پھر بھی اللہ تعالی کی خوشنودی کیسے حاصل کرپائے گا کہ اس نے تو قربانی کا حکم بھی دے رکھا ہے۔
۔۔۔اور پھر عید سے بیس پچیس دن پہلے سارے انتظامات ہوگئے۔ اس آبادی میں کسی ایک پڑوسی کا مقدمہ چل رہا تھا۔ حقوق العباد کی پاسداری کرتے ہوئے اہل محلہ اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس کے حریف پر چڑھ دوڑے۔ مقدمہ تو پیسے کے لین دین کا تھا مگر پڑوسی نے اپنے حریف پر جس کے ساتھ اصل میں کاروباری معاملات چل رہے تھے اور اب وہ پڑوسی مال اٹھانے کے بعد اس کی رقم ادا کرنے سے قاصر تھا، اپنے حریف پر ایسا سنگین الزام لگا دیا کہ جس کی سزا قانون میں تو کچھ اور ہے مگرہمارے عوام نے “موت” طے کررکھی ہے۔
۔۔۔موت کی یہ سزا سرعام دی جاتی ہے
۔۔۔ اللہ کے نام پر دی جاتی ہے
۔۔۔اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہے
۔۔۔فخر سے سینہ تان کر دی جاتی ہے
۔۔۔ جوش و جذبے کے ساتھ مذہبی نعرے بلند کرتے ہوئے دی جاتی ہے اورباقاعدہ طور پر ویڈیوز بنا بنا کردی جاتی ہے کہ کہیں کوئی اپنا اجر کھو نہ دے اور دنیا دیکھ لے کہ ہم نے اپنے عقیدے، اپنے معبود، اپنی کتاب کے تحفظ کے لیے کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیااور پورا پورا فرض ادا کیا۔
اور آج اِس بقر عید پر مقامی مسجدکے باہر نئے جوتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ حیرت اِس بات کی تھی کہ اِس بار کسی کو بھی نئے جوتے چوری ہونے کا ڈر نہ تھا کیوں کہ ہرایک کے پاس اپنا اپنا جوڑا تھا۔ بعض کے پاس تو اضافی تھے اور انھوں نے بیچ کر عید کے لیے نئے سوٹ بھی سلوا لیے تھے۔ گویا ہر ایک کو یہ جوتے مفت میں مل گئے تھے مگر حقیقت میں تو یہ بہت ہی مہنگے تھے کہ اِس آبادی کی ایک کالونی کے متعدد مکان اور ایک مکان جس کے ساتھ جوتوں کی فیکٹری بھی تھی مکمل طور پر جلا دیے گئے تھے۔مگر جوتوں کو وہاں سے بحفاظت دوسری جگہ منتقل کردیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک قیمتی جان بھی مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھا دی گئی تھی۔
اُسی بزرگ کی جان جس نے کئی سال ان تھک محنت کی تھی اور ترقی کرتا کرتا جوتوں کی فیکٹری کا مالک بن گیا تھا۔اُسی مقامی مسجد کے لاوڈ سپیکر سے تو اعلان ہوا تھا اور اِس عید پر اُسی مسجد کے باہر پڑے نئے جوتے اُس فیکٹری اور بعض اُس بزرگ کے ہاتھ کے بنے ہوئے تھےجس کو محض ایک جھوٹے الزام کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
اکثر نمازی مطمئن تھے کہ اِس عید پر نئے جوتوں و کپڑوں کا مسئلہ بھی حل ہوگیا تھا، الزام جھوٹا تھا یا سچا اپنے پڑوسی کا ساتھ دے کر انھوں نے حقوق العباد بھی ادا کردیے تھے اور اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرکے اُس معبود کی خوشنودی بھی حاصل کرلی تھی جو غالبا” اپنی، اپنے عقیدے، اپنے پیروکاروں اور اپنی کتاب کی خود حفاظت کرنے سے قاصر دکھائی دیتا تھا۔

نوٹ: کاش اِس کہانی کے تمام کردار و واقعات فرضی ہوتے اور اِن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہوتا۔

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading