اُردو ادب کے گلستان ِ سُخنوری میں منّور عزیز ایک معتبر اورجُداگانہ اسلوب کے حامل شاعر ہیں۔ موصوف اپنے لہجے کے دھیمے پن اور اعلٰی درجے کی زبان دانی سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی شاعری کا جُداگانہ وصف چند ہی شعراء کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ منّور کو شعر و سُخن کی تخلیق کاری میں لفظوں کے انتخاب اور موضوعات کی تصویر کشی کرتے ہوئے زبان و بیان کے رنگ بھرنے کا ہنر آتا ہے اور یہی اُن کے شعری اسلوب کا خاصہ ہے۔
منّور عزیز کا تعلق پاکستان کے خوب صورت علاقہ چکوال سے ہے۔وہ 1948ء میں چکوال میں پیدا ہوئے۔میٹرک سی ٹی آئی کرسچن اسکول، سیالکوٹ سے کیا۔ چکوال سے گریجویشن کے بعد کئی عشروں تک اسی شہر میں کنڈر گارٹن اینڈ ماڈل اسکول کے منتظم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔حکومتِ پنجاب کی مائینارٹی ایڈوائزی کونسل،بین الامذاہب کمیٹی، لڑیسی کمیٹی اور بیت المال کمیٹی چکوال کے رُکن رہے۔چکوال کی ادبی تحریکات کا حصہ اور بالخصوص انجمنِ توقیر ِ ادب کی مجلسِ مشاورت، حلقہء ارباب غالب اور ادبی سرگرمیوں کا جزوِ لانیفک رہے۔اپنی سماجی اور ادبی خدمات کے صلے میں آپ کو ضلعی ناظم، چکوال نے ”اعزازِ چکوال“ سے نوازا۔ ڈپٹی کمشنر، چکوال نے تعریفی اسناد اور اعزازات سے آپ کی پذیرائی کی۔منّور عزیز بعد ازاں کینیڈا منتقل ہوگئے اور تا حال دیارِ غیر میں قیام پذیر ہیں۔
منّورعزیز نے 1975ء میں جناب احمد ندیم قاسمی کے موقر جریدے، ”فنون“ سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ 1980ء میں اکیڈمی آف لیڑز کے مُلک بھر سے بہترین شاعری کے اوّلین انتخاب میں آپ کا کلام بھی منتخب ہوا۔ اسی سال سر سید کالج، راول پنڈی نے 33 سالہ پاکستانی شاعری کا انتخاب شائع کیا، جس میں آپ کا کلام بھی شامل ِ اشاعت کیا گیا۔ 1996ء میں اُردو ادب، اسلام آباد نے قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے مُلک بھر سے 17 شعراء اکرام کے کلام پر مشتمل خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا، جس میں محسن نقوی، پروین شاکر، ڈاکٹر اجمل نیازی، اور پروفیسر یوسف حسن جیسے مشاہیر کے ساتھ منّور عزیز کو بھی منتخب کیا گیا۔حالیہ اکیڈمی آف لیٹرز، اسلام آباد نے پاکستان کے 75 سالہ تمام اصنافِ ادب کا جائزہ شائع کیا۔ اس مُلکی سطح کے جائزہ میں منّور عزیز کا کلام بھی شامل ِ اشاعت ہے۔ آپ کو بلیک اینڈ وائٹ پاکستان ٹیلی ویژن پر پہلا پنجابی مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس کے علاوہ 2016 ء ایوان صدر، اسلام آباد میں سابق صدر ِ پاکستان ممنون حُسین کی صدارت میں منعقد ہونے والے جشن ِ آزادی مشاعرہ میں منّور عزیز نے بھی شرکت کا شرف حاصل کیا۔عرب نژاد اُردو شاعر ڈاکٹر زبیر فاروق (ستارۂ امتیاز) کا دوسرا مجموعہ کلام، ”سرِ کہسار“ جس کی اشاعت لکھنَو، ہندوستان میں ہوئی، اس کتاب کا انتساب منّورعزیز صاحب کے نام ہے۔ کئی ایک ادبی تذکروں میں منورعزیز کا نام ِ نامی کا شمار جدید شعراء کی اوّلین صف میں ہوتا ہے۔منّور عزیز کو مُلک بھر میں اور بیرونِ مُلک کئی ایک مشاعرے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ جستجو اُن کی طرزِ فکر کا نمایاں پہلو ہے۔ انفرادیت کے شوق نے اُنہیں بعض تیز تیز قدم اُٹھا کر بعد میں ہانپنے لگ جانے والوں کی طرح گمراہ نہیں ہونے دیابلکہ عہد ِ حاضر کے قابلِ ذکر شعراء کی صف میں جگہ دلائی ہے۔ وہ اپنے شعر کو معانی کی ایسی دُھند میں لپیٹ دیتے ہیں جس تک بغیر کاوش کے نہیں پہنچا جاسکتا اور جونہی قاری پر وہ معانی منکشف ہوتے ہیں تو وہ دریا فت کی خوشی سے سرشار ہوجاتا ہے۔
منّور عزیز اپنے کلام میں مختلف موضوعات اور اپنے پیغامات کو اہلِ ذوق قارئین تک انتہائی نپے تُلے اور باوقار الفاظ کے پیراہن میں پیش کرتے ہیں۔اُن کا اپنے مشاہدات و تجربات کا خوب صورتی کے ساتھ شعروں میں ڈھالنے کا وصف انہیں اپنے ہمعصر شعراء سے منفرداور امتیازی مقام دلا تا ہے۔
منّور کی شاعری کے معیار اور پختگی میں اُن کی شخصیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ اُن کی طبیعت میں سادگی اور صوفیانہ پن اُن کی اشعار میں بھی عود آیا ہے۔اُردو ادب کے مختلف اصناف میں قارئین کی اپنی انفرادی رائے ہو سکتی ہے، لیکن دیکھا گیا ہے کہ منّور عزیز کی غزل گوئی کے امتیازی مقام اور مرتبہ کے باعث باذوق قارئین کج بینی کرنے سے قا صر رہے ہیں۔بلکہ اُن کے خوب صورت کلام کو سراہنا اور دادِ تحسین دینا قارئین پر واجب ہوجاتا ہے۔اُردو ادبی حلقوں میں اُن کا شعری معیار اور امتیازی وصف قابل ِ داد و تحسین ہے۔
جذبہء محبت رُودادِ زندگی کا انمول تجربہ ہے۔منّورکے شعری اظہار میں بھی قلبی احساسات و محسوسات کے کئی مدو جزر پنہاں ہیں۔اُن کی من بھاون شاعری میں انفرادیت کا باعث اُن کے ذاتی اور عوامی مشاہدات و تجربات کا رنگ نمایاں ہے۔ اپنے خو ب صورت کلام سے اپنی قلبی واردات کو شعروں میں سمونا پیار محبت کا جذبہ ء انمول رکھنے والوں کی ترجمانی کے مترادف ہے۔ اُن کا مسُجع کلام حساس اور ذوقِ سُخن رکھنے والوں کے دلوں تسخیر کرتا نظر آتا ہے۔ اسی لئے ادب کے ناقدین اور با ذوق قارئین ایسے سُخن ور کو لمحہء موجود اور اس ماحول پر نظر رکھنے والا نمائندہ شاعر کہتے ہیں۔
گُمان کی انگلیوں سے پیکر تراشنا ہے
وہ انتہائے نظر ہے سارا کہاں ملے گا
مبہم سا کچھ بولتی جاتی ہیں مجھ سے دھیرے دھیرے
یہ میرے اطراف میں جو بنتی مٹتی تصویریں ہیں
آخر تیرے خیال کی مجھ پر نظر پڑی
سب میں شریک سب سے جُدا ڈھونڈتے ہوئے
عہد تجدید طلب تھا سو اُسے بھیج دیا
مجھ سے خوش فہم نے کشکولِ انا میں رکھ کر
منّور عزیز کی شاعری میں وقت کے ساتھ ساتھ جہاں پختگی عیاں ہے وہیں انہوں نے اپنے مشاہدات کی آنکھ سے ایسے اچھوتے موضوعات کو شعری قالب میں پیش کیا ہے کہ قاری کو اس کلام کی گہرائی اور گیرائی کا تعین کرنے کے لئے اور اس کلام کا لطف اُٹھانے کے لئے سوچ کی ناؤ میں کچھ لمحے سوار ہونا پڑتا ہے۔ چند منتخب اشعار ملاحظہ ہوں
پھول چُنتے ہوئے آنکھوں میں چبھن ہوتی ہے
میں نے چھوڑا تو نہیں ہار پرونا پھر بھی
درِ افلاک کُھلتا ہے میری جانب منّورؔ
مگر اُس وقت جب مجھ کو پتہ ہوتا نہیں ہے
میں چل رہا ہوں زمیں کی رفتار سے منّور
غُبار کیوں ہو رہی ہے میری سفال مجھ میں
کہا تھا میں نے کسی نے بھی کچھ سُنا نہ کہا
یہ لوگ لوگ ہیں ان سے کہا کہا نہ کہا
منّورعزیز کی شخصیت اور شاعری پر چند معتبر شعراء اور ادباء سے منسوب ادبی حوالے مُلاحظہ ہوں۔
”جینوئن شاعر کے کلام میں مصرعہ مصرعہ، شعر شعر اور غزل غزل میں ایک انجانی سی خوشبو رواں رہتی ہے۔ قاری ایک مختلف ذائقے سے آشنا ہوتا ہے۔ منّور عزیز نے اپنی شاعری میں فکر و احساس کی ایسی دُنیا آباد کی ہے جس کے درودیوار، کوچہ و بازار اور میدان و گلزار ہی نہیں خس و خاشاک تک بھید بھری دُھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔اور پڑھنے والے کو انکشاف و دریافت کی خوش گوار حیرتوں سے ہم کنار کرتے ہیں۔ اُس کی غزلوں میں صورت و معنی کی ہم آہنگی دیدنی ہے۔ اُس کا سلیقہء پیش کش، راست اظہار اور برہنہ گوئی سے مبر ا ہے۔ اس کے شعری جوہر کی کم از کم کارفرمائی بھی ایک خاص سطحِ جمال سے نیچے نہیں اُترتی۔ وہ خیال کو احساس بنانے اور احساس کو عکس و صدا کا دلاویز رُوپ دینے کا ہنر جانتا ہے۔ اِن خوبیوں سے اُسے غزل کے تحلیل ہوتے ہوئے سائے کی بجائے ایک زندہ متحرک تخلیق کار کا اعتبار عطا کیا ہے۔“
منّور عزیز کی شعری اسلوب کی انفرادیت پر تبصر ہ کرتے ہوئے عالیؔ لکھتے ہیں، ”منّور اپنے منفرد شعری خدوخال کے ساتھ دھیمی مگر پُر وقار رفتار سے خُوب سے خُوب تَر کی دُھن میں سرگرمِ سفر ہے۔ اُس کے تمام موضوعات میں تنوع اور گہرائی موجودہے۔ مگر خاص طور پر اس کا جذبہء حُب الوطنی ”پاکستانیت“ کو ایسی وسعتوں سے ہمکنار کرتا ہے کہ وہ ہر طرح کی مذہبی و مسلکی تفریق سے بُلند ہو کر اقوام ِ عالم کے سامنے سُرخرو ہوتی اور قومی افتخار کے فروغ کی راہیں روشن کرتی ہے۔“ (ممتاز شاعر، محقق،دانشور،نقاد، ماہرِ تعلیم پروفیسر جلیل عالی……تمغہء امتیاز برائے ادب 2016ء)
”منّور عزیز آدابِ ہنر کی آگہی سے بھر پور ایک فطری شاعر کی طرح مجموعی شعری فضاء کو تازہ لہجے، نئی لفظیات اور معنی خیز تراکیب سے آراستہ کرتا ہے۔ وہ اپنی کیمیا گری سے کہیں دُہرائے ہوئے مضامین کو بھی اس عمدگی سے نئی کیفیتوں میں تخلیق کرتا ہے کہ لفظ بولتی ہوئی تصویر بن کر قاری سے مکالمہ کرنے لگتے ہیں۔ ازلی ابدی حیرانی، استفہام، نت نئے رنگ ڈھنگ میں ڈھلتی شہری زندگی معاشرتی سوتیلے پن،بنتی بگڑتی شکلیں،اُس کے مزاج کا اہم تعارف ہیں۔ وہ بیان کی دشت نوردی میں گُم ہے اور اس کی لاانتہائیت کو خوب جانتا ہے۔ادھورا ہونا دراصل مکمل ہونا ہے اور اسی تسلسل کا اسرارمنّور عزیز کو اپنے ہمعصروں میں ممتاز ہونے کا اعزاز عطا کرتا ہے۔ “ (معروف شاعر، دانشور اورڈرامہ و فلم رائٹر جناب سر مدصہبائی ……تمغہء امتیاز)
”جدید سوچ و فکر کے علمبردار، معاشرتی اور انسانی اقدار سے ہم آہنگ، شفاف لہجے کے معروف شاعر، دانشور جناب منور عزیز ادبی دُنیا میں عزت و تکریم اور قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے اور پہچانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے منفرد اندازِ شعر گوئی کی مدد سے اپنے خیالات، جذبات، مشاہدات اور احساسات کو شعروں میں اس خوب صورتی سے ڈھالتے ہیں کہ قاری کو اُن شعروں کا اطلاق اپنی ذات سے محسوس ہونے لگتا ہے۔
دل گداز اور دل پذیر معطر لہجے کے مالک جناب منور عزیز شائستہ زبان و بیان، شعری بندش اور تراکیب کے طفیل اپنے اشعار کو قاری کی رُوح تک اُتارنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ میں بذاتِ خود اُن کی شعری عظمت کا معترف ہوں۔“ (یوسف پرواز…… دانش ور، شاعر، افسانہ نگار)
” منفرد نامور شاعرجناب منّور عزیز کا تعلق چکوال کے مردم خیز خطے سے ہے۔آپ کی شخصیت اور شاعری دونوں جمال اور وقار کا مرقع ہیں۔آپ بہت نفیس شخصیت ہیں اوریہ نفاست اور وقار ان کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے۔آپ ایسے شاعر ہیں جن کی ہر غزل انتخاب ہے۔ وہ پنجابی غزل بھی بہت اچھی کہتے ہیں۔“ (پروفیسر ڈاکٹر سید فہیم شناس کاظمی۔ شاعر، ماہر تعلیم، دانش ور)
”منّور عزیز شعر کے اصل مفہوم سے شنا سا ہیں،اس لئے وہ شعر پر حکومت کرتے ہیں وہ شعر کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ ہر اچھا خیال ا ور شعراُن کی تلاش میں رہتا ہے۔ انہیں مُلک سے باہر بھی مشاعرے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔“ (برگِ افکار۔ مولف سرفراز تبسم)
”چکوال کے جن ادباء و شعراء نے قومی سطح پر پاکستانی ادب کی نمائندگی کی ہے اُن میں بابا شاہ مراد، بریگیڈئیر گلزار، کرنل محمد خان، جمیل یوسف، شبنم مناروی، ماجد صدیقی اور منّور عزیز کے نام نمایاں ہیں۔“(ڈاکٹر خالد اقبال یاسر۔معروف شاعر و سابق ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات، حوالہ 2000 ء)
”منور عزیز صاحب کہنہ مشق اورخوب صورت سخن ور ہیں۔ آپ کم و بیش نصف صدی سے شعرو سخن سے وابستہ ہیں۔ منور صاحب اگرچہ کم گو شاعر ہیں مگر اب تک ان کی جتنی بھی شاعری پڑھنے کو ملی ہے اس میں معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ حسن و عشق کی بدلتی ہوئی گونا گوں کیفیات کا اظہار حقیقت پسندی کے ساتھ ہواہے۔
منور صاحب کے ہاں ایک عمدہ شعر بننے کا عمل حیران کن ہے۔جیسے ایک ماہر مجسمہ ساز اپنے ہنر اور سلیقہ مندی سے پتھر کو تراش کر شاہکار بنانے تک صبر و استقلال سے اپنا کام کرتا رہتا ہے، ویسے ہی منور عزیز صاحب اپنے اشعار کو اُس وقت تک تراشتے رہتے ہیں جب تک وہ شاہکار نہ بن جائیں۔
میر ی اس بات سے وہ لوگ ضرور متفق ہوں گے جنھوں نے منور صاحب کی کوئی غزل پڑھی یا اُن سے سنی ہے اور پھر جب اُسی غزل کو کچھ عرصے کے بعد دوبارا پڑھتے یا سنتے ہیں تو اُس غزل کے نقش و نگار کچھ کے کچھ بن چکے ہوتے ہیں۔(خالد عمانوایل …… دانش ور، شاعر، نغمہ نگار، ماہرِ تعلیم)
”مشاعرے میں منّور عزیز کو سُنا تو حیرتوں میں مزید اضافہ ہوا۔ اُن کا کلام اُن سے زیادہ جدید،تازہ اور پُختہ نکلا۔ بڑے بڑے کنجوس کُھل کر داد دے رہے تھے۔عطاالحق قاسمی کی دوستی اورمُسلم صاحب (ابوالامتیاز) کی بے تکلفی کی وجہ سمجھ میں آنے لگی۔پڑھا لکھا ہونے کے علاوہ اُنہیں پڑھا لکھا ہونے کو زعم بھی ہے، اس لئے ہمیشہ سُوٹ پہنتے ہیں۔ سوٹ پہن کر جارہے ہوں تو لگتا ہے کہ گرجے جارہے ہیں، شلوار قمیض میں آرہے ہوں تو لگتا ہے کہ جمعہ پڑھ کر آرہے ہیں۔کرسچین انہیں مسلمان اور مسلمان انہیں کرسچین سمجھتے ہیں۔ ہندو اور سکھ نجانے کیا سمجھتے ہیں، وہ ان میں بھی یکساں مقبول ہیں۔“ (تصنیف ”چاند چہرے“۔ فکائیہ نگار محمد کبیر خان……تمغہء امتیاز)
اُردو ادب کی ایک قد آور شخصیت، دانشور اور نقاد جمیل یوسف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”شاعری ایک ایسی محبوبہ ہے جو کسی رقیب کو برداشت نہیں کرتی۔“ واقعی یہ حقیقت ہے اور اس حسینہء سنگ دل کو رام کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ منّور عزیز کے کلام نے اپنے قاری اور سامع کے رُوح و قلب کو اس طور چھوا ہے کہ وہ بے ساختہ تحسین و تعریف کے کلمات کی صدا بلند کرتے ہیں۔ یہ ہنر الٰہی دین ہے، اور جومنّور کے خُون میں سرایت کر گیا ہے۔ اس الٰہی عطا کے باعث اُن کے اسلوب اور لب و لہجے میں انفرادیت کی قوس و قزاح نظر آتی ہے۔منّور کی شاعری اور فن و شخصیت کے تمام گوشوں کو چند پیرایوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ منّور عزیز صاحب جیسا شاعر اور اُن کی شخصیت و کلام باذوق قارئین کے لئے سرمایہ افتخارہیں۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******