شادی بیاہ ایک معاشرتی اور جسمانی ضرورت ہے تاکہ معاشرتی اقدار اور کلچرل اصول و ضوابط میں توازن برقرار رہے۔ ایک ادبی اور فکری بیٹھک میں مجھ سے کم عمری کی شادی پر ہی سوال کِیاگیا کہ پارؔس صاحب شادی کےلِئے مناسب،موزوں عمر کونسی ہے؟ میں نے کہا اول تو اتنی جلدی کیا ہے؟ جب لڑکی، لڑکا انفرادی،اجتماعی، کلچرل اور بالخصوص ازدواجی جملہ فرائض کو سمجھ کر عملی طور پر ادا کرنے کے اہل ہو جائے تب شادی کریں۔ اِس سے معاشرتی اور خاندانی اقدار مستحکم ہوکر وراثتی شکل اختیار کریں گی۔
بے شمار افراد اِس سوچ کےحامل ہیں کہ لڑکی کے پہلے حیض اور لڑکے کی داڑھی مونچھ نمودار ہوجائے اِن کی شادی کر دی جائے۔محض جسمانی ملاپ نہیں شادی مکمل ذمہ داری ہے شادی ازخود ایک معاشرہ ہے۔ ایک شادی شدہ جوڑا کے طرزِعمل، فکری اسلوب، فیصلہ سازی، اندازِ تخاطُب اور والدین سے ملی تربیت، پرورش نیز معاشرتی رویوں کے مثبت ومنفی اثرات ایک تو معاشرتی رویوں کو متاثر کرتی ہے نیز یہی سب نئےشادی شدہ جُوڑوں کی اولاد میں غیرمحسوس انداز میں منتقل ہوتے ہیں لہٰذا کم عمری کی شادی سماج میں منفی اثرات مرتب کرکے نفسیاتی، ماحولیاتی جمال اور خاندانی ڈھانچے کو کمزور کرتی ہے۔ کم عمری میں شادی شرحِ پیدائش میں خطرناک حد تک اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نابالغ دلہن کی جسمانی اور نفسیاتی گروتھ پر عمیق ضرب لگاتی ہےتو دوسری طرف نابالغ دلہے یعنی لڑکے میں اکتاہٹ اور بیزاری بیدار کرتی ہے۔ وہ شعر ہے کہ
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
پاکستانیوں کو شادی کے بارے اپنی سوچ اور رویوں کو بدل ہوگا۔ تشکیلِ پاکستان سے تاحال کم عمر شادی کا مسئلہ 29مئی2025 کو حل ہوا۔ بمطابق لاء ،الباکستان میں 18سال سےکم عمر لڑکی یا لڑکا ووٹ نہیں ڈال سکتے ڈرائیونگ نہیں کر سکتے اور ازخود فیصلہ لینےکے اہل قرار نہیں پاتے۔ پاکستان میں 18سال سے پہلے لڑکی لڑکا فکری سطح پر میچور نہیں ہوتے پاکستان میں میچور تو خیر 18سال کےبعد بھی نہیں ہوتے(اکثریت)۔ نفسیاتی پہلوؤں سےبھی دیکھاجائے تو ایک 18سال سے کم لڑکی،لڑکا کسی بھی سطح پر فیصلے کی صلاحیت نہیں رکھتے مثلاً معاشی فیصلے، ازدواجی فیصلے، سیاسی فیصلے،کاروباری فیصلے، امور خانہ داری میں فیصلے، فیصلے گھرہستی جملہ مسائل، گردشِ دوراں اور سنگین حالات میں میچور مثبت فیصلے۔الباکستان میں تو 18سال سے کم عمر بچہ اپنی منشا سے اپنی کلاس،جماعت کا انتخاب نہیں کرسکتا، اپنے پہناوے کا انتخاب نہیں کر پاتا کیونکہ الباکستانی کلچر میں والدین ڈومیننٹ ہیں اُن کی منشا و مرضی مسلط ہوتی ہے اب اہم سوال یہ کہ 18سال سےکم عمر بچی بچہ اپنی منشا سے شادی کیسے کرسکتے ہیں؟ جب تک اُن پر دباؤ نہ ڈالا جائے اُن کو حراساں نہ کِیاجائے بلیک میل نہ کِیاجائے یا لالچ نہ دیا جائے۔ عہدِ رواں میں کون سے فرض شناس، ذمہ دار والدین ہیں جو فکری نابالغ بچی کو، کم سن لاڈلی کو، اپنی پری کو، اپنی ننھی کلی کو کسی وحشی بھنورے کے سپرد کر دیں؟
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے الباکستان میں غیرمسلم بچیوں کو جبری تبدیلیِ مذہب اور شادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اِس نوعیت کے کیسز چنیدہ نہیں، بہت زیادہ ہے۔ غیرمسلم بچیوں کو ہنی ٹریپ کرکے،حراساں کرکے،اغوا کرکے،فکری ناپختگی کے سبب لالچ دے کر، جنسی زیادتی کےبعد بلیک میل کرکے یا کسی طور پریشرائز کرکے شادی کی جاتی ہے پھر تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ تھما دیا جاتاہے اب کوئی کچھ نہیں سکتا۔ ایسے حالات میں والدین اگر کیس کرتے ہیں تو اُن کو دھمکایا جاتا ہے اُن کو ستایا جاتا ہے حتیٰ کہ قانونی اداروں، ملازمین کو بھی پریشرائز کیاجاتاہے۔
اقوامِ عالم میں 18سال سےکم عمر بچوں کو شادی کی اجازت نہیں ہے بلکہ مندرجہ بالا اہم نکات میں سےکسی پر بھی ازخود فیصلہ لینے کی اجازت نہیں۔ اسبابِ شادی کم عمری کی اہم وجہ عزیز و اقارب بالخصوص تایا چچا کی طرف سے آنے والے میرج پروپوزل بھی ہیں کیونکہ میرج پروپوزل کے انکار پر قریبی خونی رشتوں میں دراڑ آجاتی ہے پاکستانی کلچر میں ایسا رویہ کثرت سے پایا جاتا ہے۔
اِس امر سےبھی انکار نہیں کہ جسمانی اور فکری نابالغ بچے بھی پسند کی شادی کی طرف مائل ہوکر والدین کو پروپوزل بھیجنے پر مجبور کرتے ہیں جوکہ کم عمر میں شادی کا سبب بنتے ہیں۔ صدرِمملکت آصف علی زرداری نے بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کیے
(CHILD MARRIAGE RESTRAINT BILL, 2025
PS(public)’s U.N No. 5 (139)/senate/ D(E)/ 2025, dated: 29-05-2025)
پاکستانی اقلیتی قوم کی بچیاں دہائیوں سےجبری شادی وتبدیلی مذہب کا شکار تھیں۔ اِس قانون کے مطابق چند اہم نکات ازبر کرلیں تاکہ قانونی شکنی کرنے والوں بروقت بتا سکیں۔ نابالغ،کم عمری کی شادی چائلڈ ابیوز کے زمرے میں آتی ہے۔ کم عمر بچوں کی شادی کروانے کا جرم ناقابل ضمانت ہوگا۔ قانون کے مطابق نکاح خواں کوئی ایسا نکاح نہیں پڑھائے گا جہاں لڑکی،لڑکا 18سال سےکم عمر ہوں، خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ 18سال سے بڑی عمر کا مرد اگر کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اُسے 3سال تک قید بامشقت ہو سکتی ہے۔بچوں کی شادی کی ممانعت کا بل قومی اسمبلی میں شرمیلا فاروقی نے پیش کیاجبکہ سینیٹ میں یہ بل شیری رحمان نے پیش کیا۔ قانون میں ہےکہ اگر عدالت کو معلوم ہو جائےکہ کم عمر بچوں کی شادی کی جا رہی ہےتو وہ شادی کو روکنے کے لِئے حکم جاری کرے گی، عدالت کو اطلاع دینے والا فریق اپنی شناخت چھپانا چاہے تو عدالت اسے تحفظ دے گی۔ یہ بات قابلِ توجہ ہےکہ الباکستان اقلیتوں کو 18سال سےکم عمر لڑکیوں کی شادی پر غیرمعمولی تحفظات تھے۔ قانون پاس ہو گیا اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ سرکاری ادارے اِس پر عمل کروائیں اور معاشرہ اِس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کی شکایت کرے۔ یاد رکھیں، متوازن، پُرسکون معاشرہ قانون سے نہیں، قانون پر عمل سے وجود پاتا اور مستحکم ہوتا ہے۔
*******