ایک اندازے کی مطابق 2025ءکے وسط تک پاکستان سے لگ بھگ ساڑے تین لاکھ لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ملک چھوڑے والوں کا موقف سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی خاص ملک نہیں جانا چاہتے بس پاکستان کو چھوڑ نا چاہتے ہیں حالانکہ یہ پیارے وطن کا 78 واں جشن آزاد ی کا سال ہے مطلب پونی صدی گزر جانے کے بعد بھی اگر حالات بد سے بدتر ہو جائیں اور لوگ اپنے ہی ملک کو چھوڑ کر جانا ہی اپنے لیے نجات سمجھیں تو قصورصرف عوام کا نہیں بلکہ ملک کے ان ذمہ داران کا بھی ہے جو خود کو جبری اور جمہوری طور پر اس ملک کا کرتا دھرتا سمجھتے ہیں۔
امن و امان کی صورت حال اس قدر مخدوش ہوچکی ہے کہ شام کو گھر واپسی پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر کرتے ہیں کہ صحیح سلامت پہنچ گئے۔ ہر طرف موت شکلیں بد ل بد ل کے ملتی ہے۔کبھی بلاسفیمی کے جھوٹے کیس کا ڈر،تو کہیں دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندوں کے الزام کا ڈر، لوگ اس قدر حالات سے تنگ دکھائی دیتے کہ جیسے نفیساتی مریض بن چکے ہوں، چھوٹی چھوٹی بات پر قتل کرنے پر ت±ل جاتے ہیں، غم و غصہ سے لبریز ہر شخص ایسے جیسے گھر سے جھگڑا کر نکلاہو۔
انتہاپسندی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اگر خوش ہوتے ہیں تو ہوئی فائرنگ اور نوٹ گن سے نوٹوں کی بارش کر تے دکھائی دیتے ہیں اور غم میں مبتلا ہوتے ہیں تو قتل کرنے کے در پے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بچے نے اپنی ہی بہن کو محض کھانا وقت پر تیار نہ کرنے پر قتل کردیا اور ایسی بے شمار بلاوجہ اور معمولی وجوہات کی بنا پرآئے روز قتل ہوجاتے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے ایسے حالات میں جنگل ہی کوئی محفوظ جگہ ہوسکتی ہے۔ طاقت ور کمزور کو دباتا ہے اور خود کو طاقت ور دکھانے کا کوئی ہربہ آزمانے سے گریز نہیں کرتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پاکستان میں غیرمسلم اقلیتیں خود کو تحفظ دینے کی خاطر ملک کے طول و عرض میں بسیتیوں کی شکل میں رہتی ہیں۔ تاکہ ایک دوسرے کاسہارا بنا رہے اور تعصب اور حقارت کا سامنا کم سے کم کرنا پڑے۔ حالانکہ ایک ہی جگہ رہتے ہوئے سوقسم کی ضرورت کے لیے علاقہ سے باہر تو نکلنا پڑجاتا ہے اس لیے ایسا ہونا تو نہیں چاہیے لیکن سرکاری سرپرستی میں سماج کی اس طرح کی ذہنی آبیاری نے لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ایسا معاشرتی رویہ بالخصوص مردِمومن ضیا کے دور سے شروع ہوا۔ جب امریکہ بہادر کے کہنے پر روس سے کمیونیزم نظریے کی روک تھام کی آڑ میں ایسا موقف اختیار کیا گیا کہ اگر روس کی لادینیت پاکستان اور اسلامی دنیا تک آگئی تو لوگ خدا کو ماننے سے انکاری ہو جائیں گے اور اسلامی شعار کو خطرات لاحق ہونے کے کا اندیشہ ہے۔ اصل میں کہانی پیچھے کچھ اور تھی پاکستان کو بفر زون کے طور پر استعمال کرکے روس کو محدود رکھنے کا پروگرام تھا۔ مطلب امریکہ،روس کی اس سرد جنگ میں پاکستان کو مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا اور ہمارے معاشرے کو سوچی سمجھی سکیم کے تحت مذہبی طور پر اس قدر بنیاد پرست بنایا گیا تاکہ جنگ کے لیے مجاہدین آسانی سے دستیاب ہو سکیں۔
پاکستان کے اس ضیائی انقلاب نے ذاتی مفاد کی خاطر ہر چیز کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ سرکاری نشر ناموں سے لے کر فلم ٹی وی اور نصاب تک میں عتدال ختم کر دیا گیا۔جس سے معاشرے میں مذہبی تفریق سرکاری طور پر جیسے نافذ کر دی گئی۔ آج چونکہ اس بات کو چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے اور لگ بھگ ہماری چوتھی نسل اس پاپولس تھیوری سے تیار چکی ہے بلکہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کو نارملائز کرنا خود سرکار کے بس کی بات بھی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے لوگ اندھا دھند بغیر تحقیق کے کچھ ملاو¿ں کی ذاتی تفسیروں کی وجہ سے معاشرہ میں بدامنی کا شکار ہو چکا ہے اور لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ اس مذہبی و سیاسی بے چینی کو دیکھ کر بہت سے لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ہوسکتا ہے اس میں معاشی معاملا ت کا بھی کوئی عمل دخل ہو لیکن بحرحال ایسے صورت حال پر ہر دوسرا شخص پاکستان چھوڑنا چاہ رہا ہے۔
جو کل تک مجاہدین تھے آج ان کی چوتھی چوتھی نسل اب اس انتہاپسندی کو روز گار کے طور پر اپنا چکی ہے۔ پچھلی حکومتوں سمیت آج تک اس کا کوئی مناسب متبادل حل کسی کے پاس نہیں نکل سکا ۔یہی وجہ ہے اس کے نتائج پورے پاکستان کو آئے روز بھگتنے پڑ رہے ہیں ایک فریسٹرریشن ہے ہر طرف۔ ملک ایک سیفٹی اور سیکیورٹی مسائل کا شکار ہے اور مسلسل اس حالت سے گزرنے کی وجہ سے نہ سیاسی استقامت پیدا ہورہی ہے، نہ سماجی و معاشی صورت بہتر ہورہی ہے اس صورتِ حال میں لوگوں کو مناسب یہی لگ رہا ہے کہ پاکستان شاید کبھی نہ ٹھیک ہو ،ایسی سوچ ہمارے ہاں عام پائی جارہی ہے اور ایک مایوسی کاعالم ہے جس کے نتیجے میں لوگ پاکستان چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور حب الوطنی خالی نعروں میں دکھائی دیتی ہے۔ ملک سے زندہ بھاگنے والے پاکستان زندہ باد کے نعرے محض دوسرے کو دکھانے یا خود کو دھوکہ دینے سے زیادہ نہیں۔ اگر کسی کو ملک سے اتنا ہی پیار ہے تو وہ پاکستان کو چھوڑ کر کیوں جانا چاہتا ہے اور اگر ملک سے باہر ہے تو کس منہ سے جشن آزادی منا رہا ہے۔ ا±سے دونوں میں ایک فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان زندہ باد ہے تو پاکستان میں رہے نہیں، رہنا چاہتا تو ا±س ملک کو زندہ باد کہے جس ملک کا نمک کھا رہاہے۔ دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ڈوبتا ہی ہے۔ ددغلی زندگی سے بہتر ہے کسی ایک ملک کا ہو جائے۔ جس ملک کا نمک کھا رہا ہے تو اس کی سلامتی کا دعا کرے ورنہ اس ملک کو چھوڑ کر پاکستان واپس آجائے اگر ایسا نہیں کر سکتا تو وہ پاکستان کا بھی نمک حرام ہے اور وہاں کابھی جہاں وہ ڈنکی لگا کریا پھر گھر بار بیچ کر کر گیا تھا۔ ذاتی ضروریات پر ملک کو قربان کرنے والے ملک کے لیے کبھی جان نہیں دے سکتے وفاداری کا تقاضا ہے ملک میں رہ کر ملک کی بھلائی کرے یاد رہے کہ ملک چھوڑنا اور محنت مزدوری کے لیے جانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ پاکستان پائندہ باد
*******