دسمبر کی برفیلی ہواؤں میں جب گرجا گھروں کی گھنٹیاں اَمن اور آشتی کا راگ الاپتی ہیں اور بیت اللحم کے ستارے کی روشنی ہرآنکھ میں اُمید کے دیپ جلاتی ہے تو مسیحیوں کے لیے یہ محض ایک تہوار نہیں بلکہ زندگی کی نئی شروعات کا استعارہ بن جاتا ہے۔ دسمبرکی آمد کے ساتھ ہی چار سُو مدھرگیت فضا میں گونجنے لگتے ہیں۔ ہرطرف اُمید، خوشی اورسخاوت کا نُور پھیل جاتا ہے۔ کرسمس ،جوخُداوند یسوع مسیح کی پیدائش کا جشنِ عظیم ہے اور جو دنیا کو امن، محبت اور نجات کا پیغام دیتا ہے۔
لیکن اس سال، جشن کی ان پرنور فضاؤں میں غم کے گہرے بادلوں نے ڈیرے جما لیے۔ کرسمس کے موقع پر مسیحی گھرانوں کے لیے کرسمس کی یہ سحر ‘خوشی’ کے پیغام کے بجائے ‘لہو’ کی سرخی لے کر آئی۔ جہاں سجاوٹ کی جھالریں ہونی تھیں، وہاں ماتم کی صفیں بچھ گئیں اور جہاں ہنسی کے قہقہے گونجنے تھے وہاں غموں اور سسکیوں نے ڈیرے ڈال لئے۔
اس سال کا کرسمس مسیحی برادری کے لیے امن کے بجائے کرب اور ناانصافی کی ایک ایسی داستان چھوڑ گیا جس کے نشانات ملک کے چاروں صوبوں میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پاسٹر سلامت کی شہادت، مریدکے میں سرفراز مسیح کے بہیمانہ قتل اور نوشہرہ ورکاں میں تکفیر کے سنگین الزام نے مسیحیوں میں خوف کی لہر دوڑا دی، تو وہیں خیبر پختونخواہ کے سنگلاخ رستوں اور شہرِ پشاور میں مسیحیوں کو دی جانے والی دھمکیوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں مسیحی ملازم پر قاتلانہ حملے نے عدم تحفظ کے احساس کو مزید گہرا کر دیا۔ سندھ کے ساحلوں پر کراچی میں چرچ کی زمینوں پر قبضے کی منظم کوششوں نے معاشی ظلم کی نئی داستان لکھی، جبکہ بلوچستان کی سرد ہواؤں میں کوئٹہ کی ایک جواں سالہ گھریلو ملازمہ پر چوری کا الزام لگا کر اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ یہ محض واقعات نہیں بلکہ اس لہو رنگ کرسمس کے وہ داغ ہیں جنہوں نے ثابت کیا کہ پاکستان کے ہر کونے میں مسیحیوں کی خوشیاں آج بھی نفرت، تعصب اور لاقانونیت کے سیاہ سائے تلے سسک رہی ہیں۔
پاسٹر سلامت کی شہادت نے کرسمس کی خوشیوں کو ماتم میں بدل دیا۔ وہ ہاتھ جو دُعا کے لیے اُٹھتے تھے اور وہ زبان جو اَمن و محبت کا پرچار کرتی تھی، اسے گولیوں کی تھرتھراہٹ سے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ ایک مذہبی پیشوا کا دن دیہاڑے قتل اس بھیانک حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں مسیحی قیادت بھی محفوظ نہیں ہے۔ پاسٹر سلامت کا خون اس سرزمین پر ایک ایسا سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے جس کا جواب ڈھونڈنا شاید ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ان کے جنازے پر اٹھنے والی سسکیاں اس ‘خاموش قاتل’ کی گواہی دے رہی تھیں جو عقیدے کی بنیاد پر زندگیاں چھین رہا ہے۔
ابھی گوجرانوالہ کی فضا پاسٹر سلامت کی شہادت کے سوگ میں ہی ڈوبی تھی کہ اسی ضلع کی تحصیل نوشہرہ ورکاں میں مذہبی شدت پسندی کا ایک نیا طوفان کھڑا کردیا گیا۔ ایک مسیحی نوجوان، جس کا قصور محض ایک مقامی دکاندار کے ساتھ لین دین کا معمولی تنازع تھا، اسے تکفیر کے سنگین الزام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اگرچہ پولیس کی بروقت مداخلت نے کسی بڑے جانی نقصان یا مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تباہی کو تو روک لیا، لیکن اس ایک جھوٹے الزام نے ہنستے بستے گھرانے کی زندگی اور خوشیوں کو تہس نہس کر دیا۔ جہاں اس خاندان نے اپنے پیاروں کے ساتھ خوشیاں بانٹنی تھیں، وہاں وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے ‘حفاظتی تحویل’ کے نام پر نامعلوم مقامات کی خاک چھانتے رہے ۔ یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کا عکاس ہے کہ معمولی ذاتی جھگڑوں کو مذہبی رنگ دے کر کسی بھی مسیحی کی زندگی کو جہنم بنانا کتنا آسان ہے۔
مریدکے کی گلیوں میں بہنے والا سرفراز مسیح کا لہو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہاں مسیحیوں کی زندگی کسی بھی وقت معمولی جھگڑے کی بھینٹ چڑھائی جا سکتی ہے۔ کرسمس کے روز جب سرفراز کا جنازہ اٹھا، تو وہ صرف ایک خاندان کا دکھ نہیں تھا، بلکہ پورے مریدکے کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر کے مسیحیوں کی سسکتی ہوئی امن کی امید تھی۔ ایسے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ جب تک ریاست مظلوم کو تحفظ اور ظالم کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچائے گی، خوشیوں پر خون کی چھینٹیں پڑتی رہیں گی۔
غم کے ان سایوں نے اس وقت مزید سیاہی بکھیر دی جب دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں بلوچستان کے شہرکوئٹہ میں ایک کمسن بچی پر چوری کا الزام داغ دیا گیا۔ جس عمر میں اسے کرسمس کے نئے کپڑے پہن کر گیت گانے تھے، اس عمر میں اسے تھانے کی سلاخوں کے پیچھے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعہ محض چوری کا الزام نہیں تھا، بلکہ ان ہزاروں گھریلو ملازموں کے دکھوں کی عکاسی تھی جنہیں کرسمس کی خوشیاں منانے کی پاداش میں جھوٹے مقدمات کا تحفہ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی آواز کو دبایا جا سکے اور ان کے استحصال کو جاری رکھا جا سکے۔
ظلم اور تعصب کی یہ لہراس وقت مزید سنگین ہو گئی جب خانیوال کی گلیوں میں کرسمس کے روایتی گیت گانے والے نوجوانوں کو محض ان کی مذہبی خوشیوں کے اظہار پر لہو لہان کر دیا گیا۔ جہاں فضا ‘مسرتوں’ کے گیتوں سے گونجنی تھی، وہاں ظلم و جبر کی مہیب آوازوں نے ڈیرہ ڈال لیا۔ یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کا عکاس ہے کہ آج کے دور میں مسیحی نوجوانوں کے لیے اپنی مذہبی روایات پر عمل کرنا بھی ایک جان لیوا چیلنج بن چکا ہے۔ کرسمس کی کیرل سنگنگ، جو محبت بانٹنے کا ذریعہ تھی، اسے نفرت کی بھینٹ چڑھا کر خوشیوں کے دامن کو خون سے داغدار کر دیا گیا۔
ناانصافی کا یہ سلسلہ سندھ میں روشنیوں کے شہر کراچی کے مضافات میں بھی مسیحیوں کو کرسمس کے مقدس ایام میں شدید ذہنی اذیت سے دوچار کر گیا۔ جہاں لوگ جشنِ ولادتِ المسیح کی تیاریوں میں مصروف تھے، وہاں مفاد پرست گروہوں نے عبادت گاہوں کی زمینوں پر نظریں گاڑ دیں اور چرچ کی املاک پر ناجائز قبضے کی کوششیں کی گئیں۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مسیحیوں کے لیے صرف ان کی جانیں ہی نہیں، بلکہ ان کے مقدس مقامات اور زمینیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کرسمس کے ایام میں کی جانے والی یہ سازش دراصل پوری مسیحی کمیونٹی کو معاشی اور مذہبی طور پر بے دخل کرنے کی سوچی سمجھی سازش تھی، جس نے خوشیوں کے اس تہوار کو ایک تڑپتے ہوئے سوال میں بدل دیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے سنگلاخ پہاڑوں اور بارُود کی بُو میں بسی ہواؤں نے بھی مسیحیوں کے لیے کرسمس کی خوشیوں کو اجنبی بنا دیا۔ پشاور کی گلیوں میں جہاں کبھی امن کے گیت گونجتے تھے، وہاں دسمبر کی سرد راتوں میں دھمکی آمیز خطوط اور مشکوک افراد کی آمد و رفت سے خوف کے سائے منڈلاتے رہے۔ سیکیورٹی کے نام پر لگی رکاوٹوں اور دہشت گردی کے خدشات نے بچوں کی ہنسی کو گھروں کی چار دیواری تک محدود کر دیا، جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مسیحی سرکاری ملازم پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔
یہ انسانی تاریخ کی ایک دردناک حقیقت ہے کہ بیت الحم میں مُنجیِ دوجہاں کی پیدائش یعنی پہلے کرسمس کے موقع پر بھی انسانی تاریخ خون سے آلودہ ہوئی تھی۔ انجیلِ مقدس کے مطابق، جب شاہ ہیرودیس کو نئے پیدا ہونے والے “یہودیوں کے بادشاہ” یسوع مسیح کی خبر ملی تو وہ خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے حکم دیا کہ بیت اللحم اور اس کے آس پاس کے علاقے میں دو سال یا اس سے کم عمر کے تمام بچوں کو قتل کر دیا جائے۔ وہ معصوم بچے جو مسیح یسوع کے نام پر شہید کیے گئے، دراصل مسیحی تاریخ کے پہلے مسیحی شہید تھے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نجات دہندہ کی پیدائش کے وقت بھی ایمان اور معصومیت کی قیمت خون سے ادا کی گئی تھی اور اس سال تاریخ کے اُسی واقع کو ملک کے چاروں صوبوں میں خون اور خوف کے ساتھ دوہرایا گیا ہے۔
اس شدید غم اور درد کے باوجود، کرسمس کا بنیادی پیغام ” ہار نہ ماننے اور ڈرو مت ” کا ہے۔ ان واقعات نے نہ صرف خاندانوں اور مسیحیوں کو غم زدہ کیا ہے، بلکہ ریاست کے قانون کی حکمرانی پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو مذہبی آزادی اور جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، مگر ایسے المناک واقعات مسیحی برادری میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے ریاست اور حکومت سے چند واضح اور فوری مطالبات درج ذیل ہیں:
قتل کے واقعات میں قاتلوں کو فوری طور پر قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔
حکومت مذہبی شدت پسندی اور مذہبی آزادی پر قدغنیں لگانے والوں پر قانونی گرفت مضبوط کرنے کے لئے ٹھوس پالیسی اپنائے اور نفرتیں پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
مسیحیوں کی جان و مال، املاک اور عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ خوف کے بغیر اپنے مذہبی فرائض انجام دے سکیں۔
*******


