پاپا! کیوں نا ہم مسلمان ہو جائیں؟ : عطا الرحمٰن سمن

سائمن نے اپنی عمر دس سال بتائی تھی تا ہم مجھے لگا جیسے وہ کم از کم پچاس برس کی زندگی گزار چکا ہے۔ پانچویں جماعت کا طالب علم سائمن چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔اُس کی آنکھوں میں موجود انجانے خوف کے سائے اور بے ربط لہجہ اُس کی ذہنی کیفیت کا عکاس تھا۔ چند مختصر سوالات کے بعد اجنبیت دور ہوئی تو اُس نے یوں بتایا، ”میرے پاپا کا نام ڈیوڈ ہے۔ وہ گریجویٹ (بی ایس سی)ہیں۔ انہوں نے برقیات میں ڈپلومہ بھی کر رکھا ہے اور وہ شام کے وقت اپنی اکیڈمی میں پڑھاتے ہیں۔ ہمارا ایک چھوٹا پرائمری اسکول ہے جس میں کوئی ساٹھ ستر بچے ہیں۔
گزشتہ دنوں میری امی کا پاؤں شوگر کے مرض کے باعث نہایت خراب ہو گیا تھا چنانچہ وہ ایک ماہ سے آرمی ہسپتال (CMH) سیالکوٹ میں داخل تھیں۔“ جنوری کا دوسرا ہفتہ تھا تاریخ کچھ یاد نہیں۔ پاپا امی کو واپس لینے صبح سے سیالکوٹ گئے ہوئے تھے۔ شام کو جب واپس آئے تو گھر میں ماچس نہیں تھی۔ ہمار ے گھر سے گلی میں نکلیں تو کوئی تین چار گھر وں کے بعد مین بازار ہے۔ پاپا ماچس لینے نکلے تو میں بھی ساتھ ہو لیا۔ مجھے گلی کی نکڑ پر اسٹیشنری کی د کان سے سکیل وغیرہ لینا تھا۔ ہم ماچس لے کر واپس لوٹے تو اسٹیشنری کی دکان پر رک گئے۔پاپا نے دکاندار بشارت سے سکیل اور دیگر اشیا دینے کو کہا۔ بشارت سامان نکالنے میں مصروف تھا کہ اس دوران ایک شخص وہاں آ موجود ہوا۔ اُس نے میرے ابو کو مخاطب کر کے پوچھا، ”تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے؟ موچی، نائی یا کچھ اور۔“ میرے پاپا نے جواب میں کہا، ”بھائی میں آپ کو موچی یا نائی کیوں سمجھوں گا۔ مجھے پتہ ہے آپ کشمیری ہیں اور میں ایک کرسچن ہوں۔“ اُس نے آواز کو بلند کرتے ہوئے کہا، ہمیں پتہ ہے تم کرسچن ہو۔ اور درشت لہجے میں کہنے لگا”ہم تم سے پیار کرتے ہیں۔“ اس دوران اُس نے میرے پاپا کے دونوں کان اپنے ہاتھوں میں لے رکھے تھے اور وہ پوری قوت سے مخا لف سمت میں کھینچ رہا تھا۔ میرے ابو کمزور بدن ہیں۔ شوگر کے مریض ہیں۔ صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔ وہ ایک تنو مند کشمیری نوجوان کے آگے بالکل بے بس تھے۔ میں پاس سہما کھڑا رو رہا تھا۔پاپانے دکاندار سے بمشکل کہا، ”بشارت مجھے چھڑاؤ“ مگر بشارت چاچا کسی کام میں مصروف تھے یا انہوں نے سنا نہیں یا پھر وہ کشمیری کے منہ نہ لگنا چاہتے تھے۔ اب اُس نے میرے پاپا کا سر زور سے دبا کر نیچے جھکا تے ہوئے دکان کے باہر پڑے ایک میز پر ٹکا دیا اور اپنی کہنی سے مسلسل دباؤ ڈالتے ہوئے بولا ”میں یہ کہنی لوہے پہ ماروں تو وہ دو ٹکڑے ہو جائے۔ سوچ لو اگر تمہارے سر پہ ماروں تو کیا بنے گا۔ تم اسلام قبول کر لو۔ میں تمیں جنت دکھانا چاہتا ہوں۔“ اُس نے میرے پاپا کے کانوں کو اپنے ہاتھوں کی ہتھلیوں سے پورے زور سے دبا رکھا تھا۔ میرے پاپا کے چہرے کے تاثر سے اُن کی تکلیف و ازیت عیاں تھی۔
آس پاس سے گزرنے والے ہنس رہے تھے۔ مجھے ایسے لگا جیسے وہ کہہ رہے ہوں ”کشمیری ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے۔ مسلمان ہو جاؤ ڈیوڈ مسلمان ہو جاؤ تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔“ وہ میرے پاپا کے کانوں کو پوری قوت سے ہتھیلیوں سے مسل رہا تھا۔ ”ہم تم سے پیار کرتے ہیں۔ اسلام قبول کر لو۔ اسلام میں نجات ہے۔ پھر کشمیری اپنا منہ میرے پا پا کے کان کے قریب کر کے عربی زبان میں کچھ بولتا رہا۔ میں تمہیں جنت دکھا رہا ہوں۔“ اُس نے جب دیکھا کہ میرے پا پا اُس کی گرفت میں بالکل ڈھیلے پڑ گئے ہیں تو گھبرا کر انہیں چھوڑ کر ایک طرف کو نکل گیا۔ میں کھڑا رو رہا تھا۔ میرے پاپا کی بائیں سائیڈ جیسے ساکت ہو گئی تھی۔ میں اور پاپا واپس گھر آئے تو پاپا صحن میں پڑی چار پائی پہ گر گئے۔ انہوں نے مجھے بو لا ”سامنے سے فاروق چاچا کو بلا لاؤ۔“ میں گیا مگر فاروق چاچا نہیں آئے۔
ہماری گلی میں مولوی یحییٰ رہتے ہیں۔ سب لوگ اُن کی بہت عزت کرتے ہیں۔ انہیں خبر ملی تو وہ باہر نکل آئے۔ انہوں نے غصہ کے عالم میں سب کو پوچھا۔ آخر وہ تھا کون؟ خوب برا بھلا بھی کہا مگر کسی نے انہیں کچھ نہیں بتایا۔ میں گھر آیا تو پاپا خاموش بیٹھے تھے۔ میرے دیگر بہن بھائی پاپا سمیت سکتے میں تھے۔ میرے پاپا کچھ بھی نہیں بول رہے تھے۔ صبح سے کچھ کھا یا پیا بھی نہیں تھا۔ٹھنڈ بڑھ رہی تھی مگر وہ باہر صحن میں بیٹھے بس زمین کو گھور رہے تھے۔ جیسے مادر وطن سے کوئی سوال کر کے جواب سننے کی کوشش کر رہے ہوں۔
میرے ماموں بھی آ چکے تھے مگر وہ کسی سے بات نہیں کر رہے تھے۔ میں سارے وقوعہ کا عینی شاہد تھا۔ میرے کانوں میں کشمیری کی آواز اور لوگوں کے ہنسنے کے منظر آنکھوں میں چبھ رہے تھے۔ میں اپنے پاپا کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے میری طرف نہایت کرب سے دیکھا تو میں نے اُن نے کہا ”پاپا میں نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے۔ اُس میں کوئی زبردستی نہیں کی جاتی۔ ہم کیوں نا اسلام قبول کر لیں۔“۔ پاپا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ گٹنوں میں سر دے کر بلک بلک کر رو رہے تھے۔ (جنوری 2018ء کے دوسرے ہفتہ میں یہ واقعہ لاہور کے قریب شہر میں پیش آیا ہے۔ کرداروں کے نام فرضی ہیں)

*******

One thought on “پاپا! کیوں نا ہم مسلمان ہو جائیں؟ : عطا الرحمٰن سمن

  1. ایک مسلہء جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا سوا اس کے کہ تسلیم کر لیا جائے کی دین میں کوئی جبر نہیں.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading