دیوان بہادر ایس پی سنگھا(سابق سپیکر پنجاب اسمبلی)- ساحل منیر

تحریک آزادی و قیام پاکستان کامسیحی سپہ سالار،دیوان بہادر ایس پی سنگھا وہ تاریخی شخصیت ہیں جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرار داد کے حق میں ووٹ ڈال کر قیامِ پاکستان میں اپنا اہم اور ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔(یہ الگ بات کہ پاکستان بننے کے بعد انہیں اپنے غیر مسلم عقائد کی بنا پر پنجاب اسمبلی کی سپیکر شپ سے بذریعہ عدمِ اعتماد فارغ کر دیا گیا)۔تقسیمِ ہند کے موقع پر جب متحدہ پنجاب کی قِسمت کے فیصلے کا وقت آیا تو برِ صغیر کے مسیحیوں نے ایس پی سنگھا کی قیادت میں آل انڈیا کرسچن ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے پنجاب کی تقسیم کی سخت مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ پنجاب کو مکمل طور پر پاکستان میں شامل کیا جائے۔اِس موقع پر ممتاز مسیحی رہنما جوشوا فضل الدین نے اپنے اخباری بیانات میں حکومتِ برطانیہ کو خبردار کیا کہ پنجاب کی تقسیم سے مسائل و مشکلات پیدا ہونگے ۔لہذا اِ سے کِسی طور تقسیم نہ کیا جائے بلکہ مکمل طور پر پاکستان میں شامل کر دیا جائے۔اِس حوالے سے 23 جون1947ء کو جب متحدہ پنجاب اسمبلی کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا تو سپیکر اسمبلی دیوان بہادر ایس پی سنگھا نے دیگر مسیحی نمائندگانِ اسمبلی سی ای گِبنؔ اور فضل الہی کے ساتھ پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے موجودہ پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنایا۔اِس طرح ہندوستان کے حق میں88 اور پاکستان کے حق میں91 ووٹ آئے ۔جِس کی وجہ سے پنجاب کی قِسمت کا فیصلہ ہوا ۔لیکن بعد ازاں برطانوی سرکار کی بد نیتی کی بنا پر پنجاب کو غلط طور پر تقسیم کرتے ہوئے انڈیا کو فائدہ پہنچایا گیا۔یہاں یہ امر قابلِ ذِکر ہے کہ تحریکِ پاکستان میں مسیحیوں نے کھل کر قائدِ اعظم کی حمایت کی ۔حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کی اپنی بہت سی تنظیمیں اور مذہبی جماعتیں قیامِ پاکستان کے حوالے سے قائدِ اعظم کے خلاف کمر بستہ تھیں اور انہیں برطانوی حکومت کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا تھا۔اِس دورا ن چوہدری چندو لعل ایڈووکیٹ اور بی ایل رلیا رام سمیت دیگر مسیحی رہنماؤں نے قائدِ اعظم و مسلم لیگ کی حمایت میں سر توڑ جدوجہد کی۔قائدِ اعظم تحریک و قیامِ پاکستان میں مسیحیوں کی خدمات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔بدیں وجہ پاکستان بننے کے بعد دیوان بہادر ایس پی سنگھا کو مغربی پنجاب کی پہلی اسمبلی کا سپیکر منتخب کیا گیا۔لیکن بد قسمتی سے قائدِ اعظم کی رحلت کے بعد تاریخ و نصاب میں اقلیتوں بالخصوص مسیحیوں کی خدمات و قربانیوں یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور تحریکِ پاکستان کے یکطرفہ پہلو پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی۔جِس کی وجہ سے انہیں مسلسل احساسِ محرومی و بیگانگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ایک مخصوص طبقے نے مذہبی اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں نہ صرف اِن محروم و پسماندہ طبقات کی حق تلفی کی بلکہ ملک میں بد امنی،انتشار اور انتہا پسندانہ رحجانات کو فروغ دیاجِس کی سزا آج ہم بھگت رہے ہیں ۔بِلا شبہ ملکِ پاکستان بلا امتیاز مذہب و رنگ و نسل سب کا وطن ہے۔اور اکثریت و اقلیت سے تعلق رکھنے والے سب لوگوں نے اس کے لئے جدو جہد کی ہے،قربانیاں دی ہیں۔لہذا تمام طبقہ ہائے فکر کی خدمات کا کھلے دِل سے اعتراف کرنا چاہیے۔

*******

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading