ایک عجب کہانی : ڈاکٹر ایورسٹ جان

۔”جب سورج نے نکلنے سے انکار کر دیا”۔
ہم سب مسیحی جمعہ کے دن کو اپنے عقیدہ کو دل اور روح میں یسوع کے مصلوب ہوتے دیکھتے ہیں، مگر جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے بعد اتوار آتا ہے جب ہم یسوع کو دوبارہ اپنے درمیان دیکھیں گے۔ جب دوپہر کے بعد جمعہ کے بعد گہرا اندھیرا چھا گیا اور ایسے لگا کہ قدرت کے سسٹم جس میں سورج شامل ہے، نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ زمیں میں ایک جنبش آئی اور پہاڑ ہل گئے اور ایسے لگا کہ زمیں پریشان ہے کہ وہ یسوع کے جسم کو اپنے اندر قبول نہی کر سکتی، اور لرز رہی ہے، آخر کار خدا کے مجسم بیٹے کے مردہ جسم کو عارضی طور پر زمین کے حوالے کیا جانا مقصود تھا۔ مقدس کا پردہ اپنے وقدس مقام کے ڈھانپنے کی قوت کو برقرار نہ رکھ سکا کیونکہ پاک ترین مقام کو اب گناہ گاروں کے لئے کھولا جانا مقصود تھا اور خدا کا جلال عام آدمیوں پر چمکنا چاہتا تھا۔ کون اب خدا اور انسان کے ملاپ کو روک سکتا ہے۔ ہیکل کا یہ پردہ اوپر سے نیچے کی طرف پھٹا نہ کہ نیچے سے اوہر کی طرف۔ پلاطوس کو جب معلوم ہوا کہ یسوع نے آخری سانس لے لی تو اسے یسوع کے جسم کو یوسف امرتیہ کو واپس کرنا ہی تھا کیونکہ وہ اسے اپنے مردہ خانے میں رکھ نہیں سکتے تھا، کیونکہ وہ ایک پاک بدن تھا۔

میرے دوستو! ہفتہ کا دن آرام کا دن تھا۔ عورتیں قبر پر جانے کے لئے بے چین تھیں، لیکن وہ آرام کے دن انتظار کر رہی تھیں۔ یہ کوئی یہودیوں کے سبت کا آرام نہیں تھا بلکہ یسوع کا قبر میں آرام کا دن تھا کونکہ وہ ہی سبتوں کا مالک ہے۔ چاہتا تو وہ مرنے کے فورآ بعد جی کھڑا ہوتا مگر اس نے پیش گوئیوں کے علاوہ اپنے پیاروں کو ایک گھڑی کے لئے روک دیا کہ ان باتوں کو یاد کریں کہ اسنے اہنی موت کے بارے میں کیا کہا تھا اور خاص کر یہودیوں کے اس نظریہ کو جھٹلانا کہ انسان کی روح تین دن تک مرنے کے بعد قبر کے گرد گھومتی رہتی ہے اور کبھی بھی واپس جسم میں آ سکتی ہے۔ ہفتہ آیا اور گزر گیا۔ یسوع کا جسم خاکی قبر کے اندر، شاگرد چھپے ہوے اور عورتیں خوشبو تیار کرنے میں مصروف۔

رومی حکومت اور ہیکل کے عملہ میں بے چینی۔ ندامت اور جرم کا حساس۔ بس ہر کوئی کہ رہا تھا “میں نہیں تھا، میں نہیں تھا”۔ رومی سپاہی گولگتہ کی جگہ صاف کرنے میں مصروف۔ ہر کوئی بات کر رہا ہے کہ “کل کا دن یعنی جمعہ کا دن بہت ہولناک دن تھا” ہر کوئی کہ ریا تھا کی ہم۔نے نے گناہ کو مصلوب کر دیا۔ لوگ پھر سے براباہ کو ڈھونڈ رہیں ہیں لیکن وہ نی جانے کہاں بھاگ گیا ہوگا۔ تلاش کرو اور اسکو بھی ہغانسی دے دو۔ یہودا نے درخت سے لٹک کر پھانسی لے لی اور کوئی اسکی لاش اتارنے کو تیار نہیں۔

اتوار کا دن سورج کے ساتھ نکلنے اور مشرقی آسمانوں سے طلوع ہونے والا تھا۔ مگر سورج رک گیا۔ رات کا اندھیرا قائم رہا۔ یسوع کی قبر پر آنے والی عورتوں نے کیا نظارہ دیکھا۔ کہ صبح کی وہ روشنی جو باہر ہونی چاہیے تھی وہ قبر کے اندر ہے۔ سوچا جائے تو سورج کیوں پہلےنہ نکل سکا، جو رک گیا، جب تک ہمیشہ کی زندگی کی روشنی طلوع نہ ہو، کیونکہ سورج خود اس روشنی کو دیکھنا چایتا تھا۔ سب اجرام فلکی اسکے جی اٹھنے کے انتظار میں تھے۔ قبر کے سپاہی اس روشن کی تاب کو برداشت نہ کر سکے اور بیہوش ہو گئے۔ فرشتے قبر کے اندر موجود کہ عورتوں کو خوشخبری دیں۔ یسوع نے خود اپنے آپ کو ظاہر کیا۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم فرشتوں پر یقین نہ بھی کریں تو یسوع خود آ ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔

قبر کے پتھر کی کیا ہ بات ہے۔ اسے کسی نے دھکیل کے پیچھے نہی ہٹایآ ہوگا۔ وہ پتھر بھی جان گیا ہوگا کہ اسی راستے سے یسوع نے قبر سے باہر آنا ہے میں کیوں اسکا راستہ روکوں؟ ہٹ گیا وہ داستے سے۔ اسکی رومی مہریں بھی خود بخود کھل گئیں۔ وہ کپڑا جس میں یسوع کاجسم لپٹا ہوا تھا ایک جھٹکے میں اس سے اتر کر ایک طرف جا گرا۔کون سے چیز یسوع کے جی اٹھنے سے روک سکتی تھی۔ لیکن میں سورج پر زیادہ زور دے ریا ہوں۔ اس لئے کہ جب یاتوار کے دن سورج نے یسوع کے جی اٹھنے سے پہلے نکلنے سے انکار کر دیا۔
زندہ کبھی قبر میں نہیں رہتا
زندگی کبھی مرا نہیں کرتی

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading