قوم پرستی کا معاملہ : ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

پاکستان کو آزاد ہوئے 77 برس ہو گئے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان مسیحی قوم کے ووٹ کی طاقت کے بل بوتے معرض وجود میں آیا تھا۔ قیام پاکستان سے لے کر تا حال مسیحی قوم اس ملک کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ وطن پرستی کا خوب حق ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے تقریبا ملک کے ہر شعبہ میں اپنی خدمات کا لوہا منوایا ہے۔ مشنری اسکولز و کالجز نے بنا کسی رنگ ، نسل اور مذہب کے ان گنت طلبہ و طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔اس وقت پاکستان کے موجودہ بیروکریٹس ، ڈاکٹرز ، انجینیئرز ، وزراء،دانشور اور ادباء ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔ مسیحی قوم کے نوجوانوں نے ملک و قوم کی سرحدوں کی حفاظت و وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا بے لوث نظرانہ پیش کیا ہے۔ پاکستان کی املاک کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ تعمیر وطن میں بھرپور خلوص و جذبہ کے تحت ملک و قوم کی خدمات میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ بات تعلیم کی ہو، صحت کا میدان ہو ، افواج پاکستان ہو، وکالت کا شعبہ ہو ، زراعت کا شعبہ ہو،علم و ادب کی تراویح ہو، عدل و انصاف کی بات ہو۔الغرض حقائق و اثبات کی روشنی میں یہ کہنا حق بے جانب ہوگا کہ مسیحوں اور دیگر اقلیتوں نے وطن پرستی کے لیے اپنی جان و مال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے فرائض پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کیے ہیں۔ محب وطن اور مہذب شہری ہونے کا حق بھی ادا کیا ہے۔ ہر شعبے میں رشوت اور کرپشن سے اجتناب کیا ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنی ایمانداری اور وفاداری کے باوجود بھی مسیحی قوم زوال کا شکار کیوں ہے؟ آئے دن سوشل میڈیا پر جبری مذہب تبدیلی اور ظلم و ستم کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نفرت و فرق خوب دیکھنے کو ملتا ہے۔ معاملہ یا نوک پلک معمولی ہوتی ہے،اسے توہین مذہب کی زد میں لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ہجوم کو اشتعال پذیری پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بے جا جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔بلا وجہ لعن طعن کی جاتی ہے۔ قوم کا پانچ % کوٹہ ہونے کے باوجود بھی سرکاری اور نجی ملازمتوں سے محرومی ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تنظیمیں، ادارے اور این جی اوز قوم پرستی کے لیے متحرک ہیں۔
انجیلِ مقدس میں مرقوم ہے؛
پس جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں بِالْخُصْوص اہلِ ایمان کے ساتھ۔(گلتِیوں 10:6)
وہ اپنی طاقت و بساط کے مطابق اپنی قوم کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ مگر افسوس! ان کی شنوائی نہیں ہوتی بلکہ انہیں بھی ذلت و رسوائی اور در در کی ٹھوکریں نصیب ہوتی ہیں۔اس وقت نوجوان طبقہ اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ بے یار و مددگار ہے۔ تنہائیوں اور محرومیوں کا شکار ہے۔ مصائب وآلام میں الجھا ہوا ہے۔ بھوک و پیاس میں مبتلا ہے۔ قید و بند کی صحبتیں برداشت کر رہا ہے۔ نا امیدی کے خوف میں ڈوبا ہے۔ ان سارے حقائق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ہم احساس کمتری میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں۔بلکہ ہمارا پڑھا لکھا نوجوان سفارش اور رشوت نہ ہونے کے باعث بے روزگار ہے۔غم سے نڈھال ہے۔
لہذا مشکل اور کڑے وقت میں اس وقت تمام مشنری اداروں ، ہسپتالوں ،نرسنگ سکولز و کالجز، انجینئرنگ کالجز اور دیگر تمام شعبوں کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ مسیحی قوم کے نوجوانوں کا ہاتھ پکڑیں۔انہیں اپنے اداروں میں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں اور تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کریں ۔میں ملتمس ہوں تمام بشپ صاحبان سے ، تمام پرنسپل صاحبان سے، ایم این ایز سے، ایم پی ایز سے، سینیٹرز سے ، صوبائی و وفاقی وزراء سے ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے صدور سے ، ادبی و صحافتی تنظیموں کے چیئرمینوں سے کہ اپنے اپنے شعبہ جات کے مطابق جہاں قوم کی تعمیر و ترقی کے مواقع میسر ہوں وہاں اپنی قوم کے بچوں اور جوانوں کا بھرپور ساتھ دیں۔کیونکہ تنظیمیں اور ادارے بنا کر بیٹھ جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔عہدوں کے لیبل ماتھوں پہ چسپاں کر لینایہ بھی کوئی دانائی نہیں۔
اگر آپ کام اور کارکردگی میں زیرو ہیں تو پھر معاملہ شکوک و شبہات کی نظر ہے۔اس بات کے برعکس اگر آپ متحرک ہیں تو آپ کی تمام تر کوششوں اور عظمتوں کو سلوٹ پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ بات سننے سے گریزاں ہیں تو آپ لوگوں کی سربراہی اور عہدوں پر یہ بات ایک سوالیہ نشان ضرور ہے اور یہ اس وقت تک رہے گی جب تک فرائض کی مکمل طور پر ادائیگی نہ کی جائے۔ اگر ہر صوبے کے با اختیار لوگ اپنی قوم کو اٹھانا چاہیں تو پانچ سالوں کے اندر اندر قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اگر ہر ایم این اے اور ایم پی اے بغیر رشوت کے نوجوانوں کو گورنمنٹ ملازمتیں دلوانے میں اہم کردار ادا کریں تو قوم کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہر ضلع پر کمیٹیاں بنا کر ان سے درخواستیں طلب کر لی جائیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس وقت کتنے نوجوان بے روزگار ہیں تاکہ اعداد و شمار کھل کر سامنے آ سکیں۔ ان کے بلاواسطہ اور بالواسطہ مسائل کی شرح کیا ہے؟ معاملات کہاں کہاں الجھے اور پھنسے ہوئے ہیں؟ آپ کے ایک فیصلے سے قوم کے ہاتھ سے جھاڑو چھوٹ سکتا ہے۔ انہیں قوم و ملت میں نمایاں مقام اور معیار مل سکتا ہے۔ آپ انہیں تعلیمی معیار کے مطابق مواقع فراہم کریں تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے۔ قوم کے نوجوانوں کا آپ پر اعتماد بحال ہو سکے۔ کیونکہ قومیں منشور، نظریات اور افکار کی روشنی میں اپنے مقدر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ عروج و زوال کی طرف بڑھتی ہیں۔ عصر حاضر میں مسیحی قوم کی حالت ابتر ہے۔ لاکھوں نوجوان ہاتھوں میں اسناد تھامیں اپنی قسمت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ غم و غصہ میں مبتلا ہیں۔ آپ کی شفقت کے منتظر ہیں۔اگر ہم واقعی اپنی قوم کی آبیاری کرنا چاہتے ہیں۔انہیں پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔انہیں معاشی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے مشکل وقت میں ان کی مدد کرنا ہوگی۔انہیں طرح طرح کے الزامات سے بچانا ہوگا۔نشہ جیسی لعنت سے نکالنا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایسی منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو سکے۔ کئی نئے اسکولز ، کالجز اور ہسپتال بنانے کی ضرورت ہے۔جیسے ماضی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ کیونکہ ہمارے اسلاف اور بزرگان دین نے اس سلسلے میں اہم پیش رفت کی ہے۔ آج انہی کی مرہون منت ہماری پہچان و کردار ہے۔ مگر افسوس عصر حاضر میں ان سکولوں ، کالجوں اور ہسپتالوں میں قوم پرستی کا فقدان ہے۔ نہ تو سکولوں میں داخلہ ہے اور نہ ملازمتوں کی پیشکش۔ بلکہ من پسند اور رشتہ داروں کو مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم و ستم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ان کی روک تھام میں موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ قوم میں تبدیلی آ سکے کیونکہ حتمی فیصلہ تبدیلی کی جانب گامزن کرتا ہے۔ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اپنے حقوق کی باز پرس کرنا ہوگی۔ ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب خدا کسی لیڈر کو قوم پرستی کا غم دے۔موسی جیسا نبی اور لیڈر مہیا کرے جو اپنی قوم کو قرضوں ، قباحتوں ، لعنتوں ، نجاستوں ، ظلم و ستم ، قتل و غارت ،کم سن جبری مذہب تبدیلی جیسے واقعات سی نجات دلا سکے ۔

اگر ہم نے وقت کے ساتھ منصوبہ بندی نہ کی اور اپنے حقوق کے لیے جنگ نہ لڑی تو معاملہ جوں کا توں ہی رہے گا۔وہ زیر التوا رہے گا۔ بے چینی بڑھتی جائے گی۔ ظلم و ستم کے واقعات بھی بڑھتے رہیں گے۔ معاشی بدحالی عروج پر پہنچ جائے گی۔ تاریکی اور مایوسی کے بادل گہرے ہو جائیں گے۔آئیں اس سے قبل بہت دیر ہو جائے بلکہ دار فانی ہونے سے پہلے کچھ ایسے کارنامے سر انجام دے جائیں جو تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائیں۔

نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading