جو قومیں تاریخ سے پیار کرتی ہیں۔ تاریخ بھی انہیں زندہ رکھتی ہے۔ یقینا ان قوموں کا وقار ، کارنامے ، صلاحیتیں اور خدمات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتی ہیں۔ یقینا کسی بھی ملک ، معاشرے اور خطے کی صورت احوال جاننے کے لیے تاریخ کے اوراق پلٹنے پڑتے ہیں۔ تب کہیں جا کر اس کا اصلی چہرہ سامنے آتا ہے۔کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔محبت اور نفرت کا علم ہوتا ہے۔وطن پرستی اور بے وطن پرستی کا احساس ہوتا ہے۔اس احساس محرومی کو حقیقت میں بدلنے کیلئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کے کارکنان اور مذہبی اقلیتوں نے قیام پاکستان کے سلسلے میں جو اہم کردار ادا کیا ہے۔
وہ رہتی دنیا تک زندہ اور افق پر چمکتے تاروں کی طرح نظر آتا رہے گا۔کیونکہ تاریخ سے بڑا کوئی مخلص دوست اور سچا گواہ نہیں جو چھپی ہوئی حقیقت کو اجاگر کر سکے۔
اس حقیقت سے کون روح پوشی کر سکتا ہے کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔جس کی بنیاد دو قومی نظریے پر رکھی گئی تھی۔ قائد اعظم چونکہ سیکولر سوچ کے مالک تھے۔ وہ تمام مذاہب کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔اس لئے انہوں نے 11 اگست کی اپنی تاریخ ساز تقریر میں کہا تھا۔
” آپ آزاد ہیں۔ہندو اپنے مندروں میں ، سکھ اپنے گردواروں میں ، مسیحی اپنے گرجا گھروں میں اور مسلمان اپنی مساجد میں آزادی سے عبادت کر سکتے ہیں”
میں آپ کی خدمت میں 1931 ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کیلئے سکھوں، ہندوؤں اور مسیحیوں نے سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا جو پاک و ہند کی تاریخ میں ” اقلیتوں کا معاہدہ” کہلاتا ہے۔
اس معاہدے میں مسیحیوں کی طرف سے سر ہینری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے دستخط کیے تھے۔
قیام پاکستان سے قبل بھی اقلیتیں تعلیم اور صحت کے میدان میں سرگرم تھیں اور اس وقت بی وی ایس اور ماماز اسکول پارسی چلا رہے تھے۔اسی جوش و خروش سے آج مشنری سکول،کالج اور یونیورسٹیاں اپنے اپنے حصہ کی شمع روشن کر رہی ہیں۔ چند بڑے تعلیمی اداروں میں ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور ، گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ ، گارڈن کالج راولپنڈی ، ایڈورڈ کالج پشاور اور سینٹ جوزف کالج کراچی شہرہ آفاق اہمیت کے حامل ہیں۔
ہمارے بہت سے سیاست دان ، ماہرین تعلیم ، جج صاحبان ، شاعر، وکیل مذکورہ سکولز ،کالجز اور یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔جنرل ضیاء الحق ، سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف ، سابق وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز ، سابق فیڈرل منسٹر شیخ رشید ، سابقہ صدر پاکستان آصف علی زرداری اور ان گنت نام ہیں جنہیں وقت کی کمی کے باعث بیان کرنا مشکل ہے۔
پاکستان کے کسی بھی شعبے کی بات ہو اقلیتوں کا کردار مثبت اور پاکستان کی خوشحالی کا ضامن رہا ہے۔پاکستان کی دھرتی پر کوئی مسیحی غدار نہیں ہے بلکہ ہر کسی نے اپنی طاقت اور بساط کے مطابق پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے تمام شعبوں میں اقلیتوں کا کردار موثر ، دیر پا ، بابرکت ، پرامن ، پروقار اور محب وطن کے طور پر رہا ہے۔ پاکستان کے دفاعی نظام سے لے کر عدالت عظمی تک تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ 1965 اور 1971 کی جنگ میں سسل چوہدری نے جس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا وہ قابل فخر کارنامے تھے۔جسٹس اے۔ آر کرنیلیس کو پاکستان کا چیف جسٹس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس سے بڑی حقیقت کیا ہو سکتی ہے کہ اقلیتوں کے پہلے اور پاکستان کے چوتھے مسیحی چیف جسٹس اے آر کرنیلس تھے۔
جن کی انتھک محنت اور ایمانداری آج بھی زندہ ہے۔دیوان بہادر ایس پی سنگا پنجاب اسمبلی کے پہلے اسپیکر تھے جنہوں نے برملا یہ بات کہی تھی
” سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائیں گے”
اسی طرح پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل تھے۔قومی ترانہ بھی جگت ناتھ آزاد نے لکھا تھا جو ابتدائی چند برسوں میں نافض العمل رہا۔ بعد ازاں حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے قومی ترانے کو نافذ کیا گیا جو آج تک تاریخ کا حصہ ہے۔
قیام پاکستان میں جن اقلیتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے
ان میں مذہبی اقلیتوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ہندو ، سکھ، مسیحی ، پارسی ، بدھ مت ، زرتشت ، احمدی ، شیڈول کاسٹ اور بہائی شامل ہیں۔
چند بڑی شخصیات کے نام جن کی خدمات قابل فخر ہیں۔میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس آف پاکستان بھگواس داس، کرکٹر دانش کنیریا ، گلو کاروں میں سلیم رضا ، اے نیر کی آوازیں فلم انڈسٹری میں گونجتی تھی۔ اداکار شبنم/ جھرنا ، دیپک پروانی اور موسقار روبن گھوش، ڈاکٹر رتھ فاؤ جو جرمن نزاد تھی پاکستان کے لوگوں کی خدمت کیلئے پاکستان آ کر جزام جیسے مرض کا خاتمہ کیا۔بینجمن سسٹرز کے گائے ہوئے قومی گیت وطن سے محبت کا جذبہ بڑھا دیتے ہیں۔شعر و شاعری کے فروغ میں نزیر قیصر ، پروفیسر وکٹوریا پیٹرک ، پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا ، منظور راہی اور ڈاکٹر کنول فروز جیسی شخصیات ہمارا قابل فخر اثاثہ ہیں۔
صحافت کے میدان میں 50 سے زائد جراد و رسائل علم و ادب کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔جس میں 15 روزہ کاتھولک نقیب 94 برس سے تواتر و تسلسل کے ساتھ چھپ رہا ہے۔روزنامہ آفتاب کوئٹہ/ اسلام اباد کا کردار بھی اقلیتوں کے مسائل کی نشاندہی کرنے میں پیش پیش ہے۔شعبہ طب میں کئی ہسپتال اور ڈسپنسریاں غریب عوام کی فلاح و بہبود میں مشغول ہیں۔ہزاروں ڈاکٹرز اور نرسز مریضوں کی دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔صوبہ پنجاب میں 50 سے زائد مسیحی دیہات ہیں جو زراعت اور کھیتی باڑی کے ذریعے ملک کی معاشی ترقی میں اہم پیش رفت رکھتے ہیں۔ اب اقلیتوں کا کچھ شکوہ جو حقیقت پر مبنی ہے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔
گزشتہ 30 سالوں سے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی ، جنونیت ، نفرت ، حیوانیت اور درندگی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔جبری مذہب تبدیلی جیسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق جبری مذہب تبدیلی کے واقعات ان کم سن بچیوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ان لڑکیوں کو روشن مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر گمراہ کیا جاتا ہے۔تقریبا گزشتہ 10 سالوں میں 55 مسیحی لڑکیوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔اس کے علاوہ 33 برسوں میں 1855 کے قریب لوگوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے۔ ایک اور ظلم و ستم کی داستان جو کسی دل خراش واقعہ سے کم نہیں ہے۔اس آب بیتی کا حال بھی سن لیں۔
1971 میں مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد اقلیتوں کی آبادی تین فیصد تک رہ گئی۔1981 کی مردم شماری کے مطابق بھی آبادی کی شرح تین فیصد ہے۔جبکہ 1998 کی مردم شماری میں اقلیتوں کی آبادی کو تین فیصد سے بڑھا کر چار فیصد تک کر دیا گیا۔جبکہ 2017 میں یہ پھر کم ہو گئی۔ ان 15 سالوں میں مجموعی طور پر اقلیتوں کی آبادی میں 19 فیصد کمی آئی۔اس معاملے پر میڈیا خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔جبکہ ہندوؤں کی تعداد 80 لاکھ کے قریب ہے۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عجلت اور محکمانہ غفلت کہاں ہے؟ اس سے بھی بڑا ظلم و ستم قومی اور صوبائی اسمبلیز میں اقلیتوں کی نامزد مخصوص سیٹیں ہیں۔جو اقلیتوں کیلئے احساس محرومی کا باعث بنی۔ ان تک عام مسیحی رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔پاکستان کی ساتویں مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ مسیحی قوم کی صحیح تعداد کا پھر بھی اندازہ نہیں۔
پاکستان کی سرزمین میں اس سے زیادہ درندگی اور حیوانیت کی کیا مثال ہو سکتی ہے۔ جہاں ایک مسیحی جوڑے شمع شہزاد کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا جاتا ہے۔توہین رسالت کے نام پر مسیحی بستیاں جلا دی جاتی ہیں۔ ان کے گھر مسمار کر دیے جاتے ہیں۔اس سے زیادہ ظلم و ستم کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔کون کون سا قصہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔جسے بھی بیان کرنے کی جسارت کروں اسے سن کر ہر آنکھ اشکبار ، ہر دل خون کے آنسو روئے گا۔ اگر شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر پر غور و خوض کریں تو شاید ہم ہوش کے ناخن لے لیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آپ کی خدمت میں اقلیتوں کہ حقوق اور تحفظ پر چند گزارشات پیش ہیں۔
اقلیتوں کا کوٹہ پانچ فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کیا جائے۔-
۔جوانوں کو تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمتیں مہیا کی جائیں۔
۔بے گھر لوگوں کو پلاٹ الاٹ کیے جائیں۔
۔اقلیتوں کے مسائل کیلئے ہر ضلع پر ایک کمیٹی بنا دی جائے تاکہ جلد از جلد مسائل پر قابو پا لیا جائے۔
۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسیحیوں کیلئے علیحدہ قبرستان بھی مختص کیے جائیں۔
۔جن آبادیوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔انہیں ترجیحی بنیادوں پر پانی بجلی اور گیس مہیا کیا جائے۔
آخر میں احمد ندیم قاسمی کے چند اشعار سے اجازت چاہوں گا۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
( احمد ندیم قاسمی)
نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******