مَیں اگرچہ اس موضوع پہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن میری نظر سے مولوی صاحبان کی چند ویڈیوز گزری ہیں جن میں وہ پاکستانی اقلیتوں بالخصوص مسیحیوں کو ذاکر نائیک کے ہاتھوں اسلام قبول کروانے کے لئے پر عزم ہیں۔ یہ ہم مسیحیوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں کیونکہ ملک کے طول و عرض میں پہلے ہی اقلیتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کی ساری دنیا گواہ ہے لیکن مجھے حیرت اس بات پہ ہے کہ یہ سب سرکاری سرپرستی میں ہو رہا ہے اور حکومت بھی ن لیگ کی ہے جس کا سابقہ ریکارڈ مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے حوصلہ افزا نہیں۔ گرجا گھروں کو نذر آتش کرنا، مسیحی بستوں کو جلانا، ہندو یا مسیحی بچیوں کی جبری مذہب تبدیلی، مندر جلانا، امام بارگاہوں میں خون ریزی کروانا، شیعہ کمیونٹی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیوار سے لگانا اور اس قسم کی بے شمار مثالیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں سسک رہے ہیں جو مذہب کے نام پہ تقسیم ہوا اور پھر تقسیم در تقسیم ہوتا چلا گیا ۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اس معاشرے میں برداشت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ جو مولوی صاحبان اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ذاکر نائیک کے آنے سے پاکستان میں شیعہ ہندو مسیحی سکھ وغیرہ اپنے عقائد چھوڑ کر سنی مسلمان بن جائیں گے تو یہ فیصلہ ان کے جانے کے بعد عوام خود ہی کر دے گی۔ فی الحال میری طرف سے چند گزارشات جو ذاکر نائیک اور ان کے حواریوں کے لئے ہیں؛
۔1۔ اگر آپ کی زندگی کا اولین مقصد دنیا بھر میں اسلام کو غالب کرنا ہے تو پھر سب سے پہلے آپ اسے اپنے لگ بھگ چھے فٹ جسم پر غالب ہونے دیں کیونکہ نہ تو آپ میں برداشت ہے اور نہ ہی حلیمی۔ آپ جس نبی کی تعلیمات کا پرچار کرتے ہیں وہ تو اپنے اوپر کوڑا پھینکے والی عورت کا بھی احترام کرتے تھے اور آپ میں اس قدر غصہ اور گھمنڈ ہے کہ دوسرے کی بات سن کر ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔
۔2۔ آپ جس نبی کی تعلیمات کا پرچار کرنے یہاں آئے ہے وہ صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے ۔آپ پاکستان تو قطر ائیر ویز سے آئے لیکن بدنام پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کو کر دیا۔ آپ نے اپنے کیمروں کی وہ قیمت بتائی جس قیمت کا کیمرہ دنیا میں موجود ہی نہیں۔ آپ یوٹیوب کی کمائی کو حرام قرار دیتے ہیں جب کہ آپ خود بھی یوٹیوب کے بینیفشری ہیں۔ آپ عدل و انصاف کی بات کرتے ہیں لیکن خود ملکی قوانین کا احترام نہیں کرتے۔
۔3۔ آپ شوق سے تبلیغ کریں لیکن اس کی ابتدا درست کریں۔ پہلے اپنی ذات سے اور پھر اپنے حلقہ احباب سے۔ آپ تبلیغ کریں ان مولویوں میں جو مسجد و منبر کا احترام نہیں کرتے بلکہ وہاں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔
۔4۔ آپ تبلیغ کریں ان تاجروں میں جو ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز نفع کے ذریعے عوام کی زندگیاں مشکل بناتے ہیں اور جن کے لئے واضع احکام بھی موجود ہیں۔
۔5۔ آپ تبلیغ کریں ان افسران میں جو رشوت اور سفارش کے بغیر کام نہیں کرتے۔ اُنہیں سمجھائیں کہ اسلام ان کے متعلق کیا کہتا ہے۔
۔6۔ آپ تبلیغ کریں ان مولویوں میں جو اقلیتی بچیوں کو جبری اسلام قبول کرواتے ہیں۔ اُنہیں سمجھائیں کہ دین میں جبر نہیں اور یہ قرآن کا واضع حکم ہے۔
۔7۔ آپ تبلیغ کریں ان سیاست دانوں میں جو ذاتی مفادات کی خاطر ملک و قوم کا سودا کرتے اور قوم کے بچوں کو بھوکا رکھ کے اپنے بچوں کے لئے بیرون ملک جائیدادیں بناتے ہیں۔
۔8۔ آپ تبلیغ کریں آئی ایم ایف کے سودی نظام پر جو اس ملک میں رائج ہے اور تمام بنک اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
۔9۔ آپ تبلیغ کریں ان میڈیا چینلز اور صحافیوں میں جو ذاتی مفادات کی خاطر حقائق کو چھپاتے اور مسخ کرتے ہیں۔
۔10۔ آپ تبلیغ کریں ان منصفوں میں جنہوں نے انصاف کرنے کا حلف اُٹھایا لیکن یہ انصاف اختیار اور پیسے والوں کے گھر کی لونڈی بن گیا۔
۔11۔ آپ تبلیغ کریں ان جعلسازوں میں جنہوں نے جان بچانے کی ادویات تک جعلی بنا رکھی ہیں جن کے سبب نجانے کتنے پاکستانی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
۔12۔ آپ تبلیغ کریں ان ڈاکٹروں میں جو سرکاری ہسپتالوں کو ناکام بنا کر اپنے پرائیویٹ کلینک کامیاب بنا رہے ہیں۔ یہی ڈاکٹر اپنے کمشن کی خاطر مخصوص کمپنیوں کی ادویات تجویز کر کے حج اور عمرے پہ چلے جاتے ہیں۔
۔13۔ آپ تبلیغ کریں ان مسلمانوں میں جو دوسروں کے مذہبی عقائد و نظریات کا مذاق اُڑاتے اور اُن کے متعلق غلط باتیں کرتے ہیں ۔ اُنہیں بتائیں کہ قرآن اس بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے۔ ویسے یہی کام آپ خود بھی کرتے ہیں۔
(زیر نظر تصویر ذاکر نائیک کے آفیشل پیج سے لی گئی ہے باقی آپ خود سمجھدار ہیں) میرے نزدیک کسی کا کردار و عمل تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ میں آج کے لئے اتنا ہی کافی سمجھتا ہوں۔
نوٹ: ”تادیب“کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری ہیں۔”تادیب“ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******