حکومت کی خاموش پالیسی اور اقلیتیں :خالد شہزاد

یوں تو پاکستان کا آئین اقلیتوں کو برابر کا شہری اور مساوی حقوق کا آئینہ دار سمجھتا ہے تاہم تصویر کا دوسرا رُخ اس کے برعکس ہے۔ آئے روز کبھی احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ اور کبھی مسیحیوں کے خلاف نفرت اور دوسری جانب پاکستان بھر میں اقلیتوں کو سماجی سطح پر بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے اور جھوٹے الزامات کے باعث پورے خاندان یا محلے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وفاق، کے پی اور پنجاب میں سرکاری سکولوں میں اتنا شدید مذہبی ماحول بنایا گیا ہے ”کہ اقلیتی بچوں کو اسکولوں میں صفائی جیسے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جس سے اُن کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔“ یا پھر طلبا کی جانب سے مذہب کو تبدیل کیے جانے پر اصرار۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا یہ کہنا کہ ”اقلیتیں میرے سر کا تاج ہیں“ ایک خوش کن نعرہ ضرور ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پنجاب میں اقلیتیں جھوٹے مقدمات، مذہبی نفرت اور تعلیمی اداروں میں مذہب کی تبدیلی کے دباؤ کا شکار ہیں۔ ایف آئی آرز کے تسلسل، جیسے کہ پنجاب میں مسیحی اور احمدی برادری کے خلاف جھوٹے اور سنگین مقدمات کا اندراج ایک تشویشناک حقیقت ہے مثال کے طور پر، تھانہ حجرہ شاہ مقیم کے پولیس افسر شوکت علی نے اپنی ہی مدعیت میں رشید مسیح ولد عاشق مسیح کے خلاف ایف آئی آر درج کی جس میں سنگین دفعات شامل کی گئیں۔ ریاستِ پاکستان کے خلاف بغاوت، توہینِ مذہب اور مسلمانوں کے خلاف شر انگیزی۔ یہ مقدمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس جیسے ادارے بھی اقلیتوں کو دباؤ میں لانے اور اُن پر غیر ضروری مقدمات قائم کرنے میں ملوث ہیں۔

تھانہ شمالی چھاؤنی لاہور ہو یا پھر تھانہ گرجاکھ ضلع گوجرانوالہ کے رہائشی منور مسیح ولد عاشق مسیح کے خلاف درج مقدمہ، یا گوجرانوالہ کی معصوم مریم کے ساتھ ہونے والا سلوک، یہ واضح کرتے ہیں کہ حکومت کی پالیسی اندرونِ ملک دباؤ ڈالنے اور بیرونِ ملک ایک خوبصورت تصویر پیش کرنے کے درمیان جھول رہی ہے۔ حکومت پنجاب ان مقدمات پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتی ہے۔ اس خاموشی کے دو بڑے پہلو ہیں اندرونِ ملک اکثریتی مذہبی طبقے کو ناراض نہ کرنے کے لیے حکومت اقلیتوں کے مسائل پر خاموشی اختیار کرتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر وفاقی وزیر مملکت مذہبی امور کھیل داس اور پنجاب کے وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور، رمیش سنگھ اروڑہ کو مختلف فورمز پر پیش کر کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کے سامنے پاکستان کو ایک ”ماڈل ملک“ کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔

یہ تضاد حکومت کی دوغلی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں اندرونِ ملک اقلیتوں کو دباؤ میں رکھا جاتا ہے اور بیرونِ ملک مثبت تصویر پیش کی جاتی ہے حالانکہ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 20 اور 25 تمام شہریوں کو مذہبی آزادی اور مساوات کی ضمانت دیتے ہیں۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 ء کی تقریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ ریاست کسی شہری کے مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں کرے گی۔ پنجاب کی حکومت وقتاً فوقتاً یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اقلیتوں کے لیے تعلیمی کوٹے، ملازمتوں میں ریزرو نشستیں اور ترقیاتی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ لیکن عملی میدان میں ان دعوؤں کی حقیقت مختلف ہے۔

اگرچہ اقلیتوں کے لیے صوبائی اور قومی اسمبلی میں نشستیں مخصوص ہیں، لیکن ان کی حیثیت زیادہ تر نمائشی ہے۔ اقلیتی اراکین کو اصل پالیسی سازی میں شامل نہیں کیا جاتا اکثر اوقات یہ نمائندے صرف حکومتی بیانیے کی تائید تک محدود رہتے ہیں۔ عوامی مسائل، خاص طور پر تو ہینِ مذہب کے مقدمات یا زمینوں پر قبضے کے کیسز، پر یہ نمائندے عملی اقدامات کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اقلیتوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم معاشی میدان میں ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کو زیادہ تر صفائی اور نچلے درجے کی نوکریوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تعلیم یافتہ اقلیتی نوجوان اعلیٰ عہدوں پر جانے کے باوجود مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جھوٹے مقدمات اور سماجی دباؤ کے باعث کاروبار اور زمینوں کی خرید و فروخت بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ سب عوامل اقلیتوں کے لیے ایک ”معاشی قتل“ کی شکل اختیار کر چکے ہیں، کیونکہ وہ اپنی محنت اور قابلیت کے باوجود آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اقلیتوں کو سماجی سطح پر بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے جیسے کہ جھوٹے الزامات کے باعث پورے خاندان یا محلے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں صفائی جیسے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جس سے ان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔

شادی بیاہ، رہائش اور روزمرہ تعلقات میں بھی اقلیتیں غیر محسوس دباؤ میں رہتی ہیں۔ سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کھیلوں کے مقابلے ہوں یا میوزک یا پھر بین الاقوامی علمی یا تحقیقی مواقعوں پر بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ کے پی کے جمعیت علماء اسلام کی مخصوص نشست کے ایم پی اے بابا گروپال سنگھ نے توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعہ ایوان میں سوال اُٹھا یا ہے ”کہ آل سینٹس چرچ پشاور خود کش حملہ کے متاثرین کے لیے قائم انڈومنٹ فنڈ سے آج تک کسی بھی متاثرہ خاندان کو کے پی حکومت کی جانب سے ایک روپیہ نہ ملنا وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے زیادتی کا کھلا اظہار ہے۔“

کے پی کے ہی سے نون لیگ کی مخصوص نشست سے ایم پی اے سریش کمار نے کے پی اسمبلی میں اپنے توجہ دلاؤ نوٹس میں صوبائی حکومت کی اقلیتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اُٹھایا ہے ”کہ کے پی میں ہندو، سکھ، بہائی، کیلاشی اور مسیحی اقلیتوں کے لیے مخصوص تعلیمی کوٹہ دو فیصد پر بھی مکمل عملدرآمد نہیں ہو رہا۔“ اُنہوں نے انکشاف کیا ہے کے صوبہ سرحد میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کوٹہ کے نام پر نوسو سیٹیں مختص ہیں لیکن اقلیتوں کے لیے دو سیٹیں کیوں؟ اگر صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومتیں واقعی اقلیتوں کو تاج سمجھتی ہے تو اُنہیں یہ دوغلا رویہ ترک کر کے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ پاکستانی اقلیتیں بلا خوف اور بلا امتیاز اپنی زندگی گزار سکے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading