وجودِ پاکستان کی تاریخ سے تین دن پہلے گیارہ اگست کو قائد اعظم نے اُس وقت کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں بطور صدر ایک تقریر کی جو مجض ایک تقریر نہیں بلکہ ایک نو زائیدہ ممکت کو چلانے کا ایک دستور تھا ۔ جس میں قائد اعظم نے اُس نئی مملکت کے آئینی اور سماجی امور کو چلانے کا نقشہ کھینچا۔ اُس تقریر میں تحریکِ پاکستان میں ہونے والے تلخ تجربات بیان کیے گئے جس میں مسلمان اور پاکستان میں شامل ہونے والے فسادات سے متاثرین کا بھی ذِکر کیا گیا جو صدیوں سے ذات پات کے خود ساختہ نظام کے ستائے ہوئے شودر اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔
لگ بھگ تین ہزار سال سے ہندوستان پر حملہ آور ہونے والوں نے یہاں کے اصل باسیوں کو مذاہب اور ذاتوں میں تقسیم کر کے ذہنی غلام بنا رکھا تھا اور وہ بکاﺅ لوگ جنہوں نے اُن فاتحین کے ہاتھوں بیعت کر کے یہاں کی زمینوں اور مال اسباب میں اپنے حصے وصول کیے تھے ۔یہاں کے راجہ، مہاراجہ اور نوابوں کے ٹائٹل حاصل کیے پھر لوگوں کو تقسیم در تقسم کر کے غلامی کو مذاہب کی کلی چڑا دی۔ اور اپنی طاقت و لیاقت کے مطابق اپنے سے کمزور کو غلام در غلام بنا کراِس خطے کو اپنی ذاتی ریاستوں میں بانٹ دیا۔ وہ لوگ جو بعد میں یہاں کے راجے، مہارجے اور نواب کہلائے اور بےچارے شعوری طور پر معصوم عوام کو اپنی رعایا بنا ڈالا۔
انگریز نے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے نو آبادیاتی نظام کی بساط لپیٹ لی اور ہندستان کو لاوارث چھوڑ دیا بالکل اُسی طر ح جیسے امریکہ افغانستان میں اپنا ناکارہ اسلحہ چھوڑ کر چلاگیا۔ پس اگر اس موقعے پر جب اِس خطے کی سیاسی قسمت قبیلوں کے سائز کے مطابق یہاں کے باسیوں پر مہربان ہو رہی تھی تو ہندوستان کی اُس وقت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان اور باقی چھوٹی چھوٹی اقلیتیں ایک پلیٹ فارم پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھیں۔ گاندھی جی متحدہ ہندستان میں متناسب نمائندگی پر سب کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ادھر قائد اعظم حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقوں کو ایک الگ ریاست حاصل کرنے کے لیے جد و جہد کر رہے تھے قائداعظم بطور ایک قابلِ اعتبار اور زِیرک شخصیت ہونے کی وجہ سے لوگ جوق در جوق ساتھ آنے کے لیے تیار ہوگئے ۔اُن میں اُس وقت کی دیگر اقلیتیں بھی شامل تھیں۔لہٰذا سب نے ملکر قائداعظم کا ساتھ دیا تاکہ اُنہیں صدیوں سے ذہنی اور جسمانی غلامی سے نجات مل سکے اور ایک نئی ریاست میں سکون کا سانس نصیب ہو جس کی سربراہی ایک پڑھی لکھی اور باشعور قیادت کررہی تھی۔
قائد اعظم کی اس گیار ہ اگست کی تقریر کا متن بھی کچھ ایسا ہی ہے،تم اس نئی نویلی ریاست جس میں رہنے والے ہر شہری کو اپنی اپنی دینی، مذہبی رسومات اور مذہبی فرائض ادا کرنے کا پورا حق حاصل ہے ، مطلب اس نئی ریاست کا مقصد پاکستان میں بسنے والے ہر شہر ی کو بلا رنگ و نسل اور مذہب، جان ومال کا خیال رکھنا پہلی ترجیح ہوگا۔ یعنی اب یہاں مسلمان مسلمان نہیں رہے گا اور ہندو ہندو نہیں بلکہ ہم سب پاکستانی ہوں گے“۔
””You are free; you are free to go to your temples… You may belong to any religion or caste or creed—that has nothing to do with the business of the State.”“
یہ سب کچھ اُس وقت ملیا میٹ ہوا جب غیر متفقہ قرارد اد مقاصد پیش کی گئی اور وہ ویژن جس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ساری جدو جہد کی گئی تھی بری طرح مثاثر ہوگئی۔ کیونکہ قراداد مقاصد میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ پاکستان جس کے حصول کی جنگ قائداعظم سمیت ہم خیال دوستوں نے لڑی۔ اب ےکسر بدلنے والی ہے اور وہ ملک اپنے لئے ذات پات سے محفوظ مقام سمجھنے والے وہ اقلیتی راہنما جنہوں نے پاکستان کا ساتھ صرف اس لیے دیا تھا کہ اُونچی ذات کے ہندووں نے ذات پات کے نام پر اُن کاناک میں دم کر رکھا تھا اور زندگی اجیرن بنا رکھی تھی اِس سے نجات مل سکے۔ یہاں تک کہ اس ناروا سلوک کا شکار خود نیچی ذات کے مسلمان بھی تھے۔ جو اُس وقت کی ہندو اکثریت اور مسلم نوابوں کے ہاتھوں ذہنی اور معاشی طو پریرغمال بنے ہوئے تھے ۔ لہٰذا اُن اقلیتی ارکان جن میںجوگندر ناتھ منڈل سمیت دیگر ارکان جن میں ایم این رائے،بھگوان داس،چندر موہن ،پرکاش سنگھا وغیرہ شامل تھے۔ اُنہوں نے اُس قرار داد کی مخالفت کی ، مخالفت کی ایک وجہ تو اس قرارداد میں کچھ سُکم موجود تھے ۔دوسرا قرار داد پیش کرتے ہوئے اُنہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
یعنی یہ پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں پر پہلا سیاسی حملہ تھا جس میں اُنہیں فیصلہ سازی میں شامل ہی نہیں کیا گیاتھا۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب تو تھا کہ جب کام نکل گیا تو سب سے پہلے اُنہیں اپنے ہی ملک میں بیگانہ کر دیا۔ بحرحال یہ قراددارمقاصد میں ہونے والی پہلی غیر متفقہ قرار داد تھی جس کی بنیاد پر بعد میں تہتر (۳۷)کا آئین بھی تشکیل دیا گیا۔
یہ ظلم اور زیادتی کا آغاز تھا، اس پر قائداعظم کے وہ غیر مسلم ساتھی پریشان ہوگئے کہ اُن سے شاید بھول ہوگئی کیونکہ یہ بذات خود قائداعظم کے اُس ویژن پر جو گیارہ اگست کی تقریر میں بیان کیا گیا تھا کی نفی تھی بلکہ تحریکِ پاکستان کے مقاصد کے ہی خلاف تھا ۔اب جس بات کو تحریکِ پاکستان کے وقت تقریروں میں بیان کیا جاتاتھا کہ ایک نئی مملکت اس لیے ناگزیر ہے کہ ا نگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہندو مسلمانوںکو پھر سے غلام بنا لیں گے ۔فوری طورپر قرارِدادِ مقاصد کو ترتیت دینے والی کیبنٹ سے توایسا ہی معلوم ہوررہا تھا جیسے صرف ورژن تبدیل ہو ا ہے مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ اب کے بار ہندو نہیں بلکہ قائداعظم کے وفادارغیر مسلم ساتھیوں کی قوم کے ساتھ ایسا ہونے جار ہا تھا۔
کیونکہ یہ ایک جمہوری فیصلہ نہیں تھا جس میں سب ساتھیوں کو بلارنگ و نسل اور مذہب ایک پاکستانی کی حیثیت سے شامل کیا جاتا۔
قراردادِ مقاصد کمیٹی کے ممبران کے روّیے جس میں ابتدا ءسے ہی مذہبی تقسیم سے جوگندر ناتھ منڈل سمیت سب دوست رنجیدہ ہو گئے
حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ ان میں کچھ وفات پاگئے اور کچھ پاکستان چھوڑ گئے۔ منڈل تو بیچارے نہ پاکستان کے رہے نہ ہندوستان کے رہے ۔ اگر اُس وقت پہلی قرارد اد مقاصد قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے تناظر میں لکھی جاتی تو سب لوگ جنہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ کاسٹ کرکے اور خود جدو جہدمیں شامل ہوکر اس تحریک کو جو جلا بخشی تھی ان کا اعتماد اور بھی بڑھ جاتا اور پھر اگر انہیں اس کمیٹی میں شامل کر لیا جاتا ہے تو یہ بات اوربھی یقین سے کہی جا سکتی تھی کہ پاکستان کا جو نقشہ آج دنیا کے سامنے ہے اس سے قدرے بہتر ہوتا۔
پاکستان کی دنیا میں بہت زیادہ عزت ہوتی اور دنیا ہمیں اور بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی جیسے آج ہم سے زیادہ انڈیا،انڈونیشا ،ملائیشا ،آزربائیجان،ترکی اور متحد عرب امارت کو دیکھتی ہے۔
مندرجہ بالا ریاستوں میں ایک بات تو مشترک ہے کہ یہ آزاد ریاستیں ہے۔ ان کے باشندے اپنے اپنے ملک میں کسی بھی مذہبی دباﺅ کے بغیر زندگی بسر کررہے ہیں ۔ وہاں نسبتاً اَمن ہے، خوشحالی ہے، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے شائد بابائے قوم کی گیا رہ اگست کی تقریر ان ممالک نے سن رکھی ہے اور ہم نے اس تقریرکو سنجیدگی سے نہ لیکر اپنے لیے ایک سیاسی بلیک ہول بنا لیا ہے۔ آج ہم ذلیل و خوار ہورہے ہیں یہاں تک کہ آج کوئی اس ملک میں خوشی سے رہنے کے لیے تیار نہیں اگر کسی کو اس بات میں کوئی شک ہو تو پاکستان کے ائرپورٹ ،سفارتخانوں اور پاسپورٹ دفاتر کے باہر جا کر دیکھ لیں آپ کوخودہی اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کتنے محب ِ وطن ہیں۔
قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکا پس منظر ۔ امجدپرویزساحل
