انسانی حقوق کے قومی ادارے اور جبری تبدیلی مذہب : نبیلہ فیروز بھٹی

قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال کی 30 اپریل کو جاری کردہ رپورٹ ”پاکستان میں بچوں کی صورتحال 2024“ کے مطابق ”اقلیتی بچیوں خصوصاً ہندو اور مسیحی برادریوں کی بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی شدید خلاف ورزی ہے۔ نابالغ بچیوں کا اغوا، جبری تبدیلی مذہب اور بڑی عمر کے مردوں سے نکاح سندھ اور پنجاب میں کثرت سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ صوبہ سندھ میں صورتحال خاص طور پر ابتر ہے جہاں جبری تبدیلی مذہب کے رپورٹ کردہ کیس 69 فیصد ہیں جبکہ پنجاب میں یہ 30 فیصد ہیں۔ جبری تبدیلی مذہب کا شکار 71 فیصد اٹھارہ سال سے کم عمر بچیاں ہیں جبکہ 22 فیصد چودہ سال سے بھی کم عمر جن کی جبری شادیاں بھی کروا دی گئیں۔ قانونی تحفظات کی کمی اور معاشرتی بے حسی مجرموں کو ایسا فعل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ جس سے متاثرہ خاندان صدمے کا شکار اور بے اختیار رہتے ہیں“ ۔ قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال نے دسمبر 2021 میں بھی جبری تبدیلی مذہب کو بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی مانتے ہوئے اس پر ایک پالیسی بریف جاری کیا تھا اور نہایت ٹھوس سفارشات پیش کی تھیں۔

قومی کمیشن برائے وقارِ نسواں (NCSW) نے خواتین اور بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب کی مسلسل مذمت کی ہے اور اسے صنفی بنیاد پر تشدد کی ایک شکل تسلیم کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لئے قانون سازی کرنے اور اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) نے سندھ اور پنجاب میں جبری تبدیلی مذہب کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی مانتے ہوئے مجرموں سے نابالغ لڑکیوں کو بازیاب کروایا ہے۔ اس طرح سے پاکستان میں انسانی حقوق کے قومی ادارے (NHRIs) جبری تبدیلی مذہب کے مسلے کو سمجھتے ہیں، اس پر قانون سازی اور قانون کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے چوتھے قومی ادارے قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت (NCMR) کا مسودہ ایوانِ زیریں اور ایوان بالا سے پاس ہو چکا ہے لیکن نامعلوم و جو ہات کی بنا پر صدرِ مملکت نے تاحال اس پر دستخط نہیں کیے او ر پیرس پرنسیپلز سے قریب اس مسودے کو تا حال قانون کا درجہ نہیں مل سکا۔

جبری تبدیلی مذہب پر تشویش اس خطے کے لئے نیا رجحان نہیں ہے۔ اس مسئلے کو نمایاں کرنے لئے آل انڈیا مسلم لیگ نے دسمبر 1927 میں کلکتہ میں ایک قرارداد پاس کی۔ تاریخ دان غلام علی الانا کی کتاب ’پاکستان موومنٹ: ہسٹارک ڈاکومنٹس‘ کے مطابق مسلم لیگ نے مطالبہ کیا تھا کہ، ”ہر فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلیل یا دعوت کے ذریعے کسی دوسرے کو اپنے مذہب کی طرف تبدیل یا دوبارہ تبدیل کرنے پر راغب کرے۔ لیکن کسی فرد یا گروہ کو طاقت، دھوکہ دہی یا دیگر غیر منصفانہ ترغیبات سے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ نیز اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا مذہب اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے جب تک ان کے والدین یا سرپرست مذہب تبدیل نہ کریں۔ اگر اٹھارہ سال سے کم عمر کوئی فرد اپنے والدین یا سرپرست کے بغیر دوسرے عقیدے کے لوگوں میں گھرا پایا جائے تو اسے فوراً اس کے اپنے عقیدے کے لوگوں کے حوالے کرنا چاہیے ”۔ پس تقریباً ایک صدی پہلے مسلم لیگ نے تبدیلی مذہب کے لئے اصول واضح کیے۔

مزید برآں پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 20 تمام شہریوں کو اپنے مذہب کو ماننے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کا پر چار کرنے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں مذہب اور عقیدے میں تبدیلی کی آزادی بھی شامل ہے مگر وہ کسی جبر یا غلط ترغیبات کے نتیجے میں نہ ہو۔ علاوہ ازیں، پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 498۔B کے مطابق جبری شادیوں کی ممانعت کرتے ہوئے، غیر مسلم عورت اور کمسن بچی سے شادی کی کم ازکم سزا پانچ سال قید اور جرمانہ ہے۔ تاہم جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے مخصوص قانون سازی کی 2016 اور 2019 میں بھی مخالفت کی گئی ہے۔ ستمبر 2020 میں مذہبی اُمور و بین المذاہب ہم آہنگی کی سٹینڈنگ کمیٹی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل 2020 رد کر دیا جس میں جبری تبدیلی مذہب کا موضوع بھی شامل تھا۔ ان تمام بلوں میں تبدیلی مذہب کے لئے اٹھارہ سال عمر، تبدیلی کے لئے باقاعدہ طریقہ کا طے کرنے اور زبردستی کرنے والوں کے لئے سزا کی سفارشات تھیں۔

وزارتِ انسانی حقوق نے 2021 میں جبری تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کے لئے ایک مسودہ قانون تیار کیا تھا لیکن وزارتِ مذہبی اُمور و بین المذاہب ہم آہنگی نے ڈرافٹ بل پر اعتراضات اُٹھا کر اسے رد کر دیا۔ وزارتِ مذہبی اُمور نے اس مسودے پر مشاورتی اجلاس میں اس میاں مٹھو کو خاص اہمیت دی جو سندھ میں نوعُمر ہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور زبردستی شادیاں کروانے کے لئے مشہور ہے۔ وزارتِ مذہبی اُمور و بین المذاہب ہم آہنگی صرف اسلامی امور کی وزارت نہیں ہے، یہ ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی بھی وزارت ہے۔ اسے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے تیار کردہ مسودہ بل عام شہریوں کی مذہبی آزادی کو مجروح کرنے کی بجائے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچیوں کے جبری تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کی کوشش تھی۔ یہ صرف مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ انصاف اور حقوق کا معاملہ ہے۔ وزارتِ مذہبی اُمور کو اقلیتوں کے خلاف جبری تبدیلیٔ مذہب جیسے بدترین جرائم سے تحفّظ کے لئے حق کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ تاریخ میں اسے اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے۔ اقلیتیں برسوں سے جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہی ہیں، جو مذہب کو جرائم پر پردہ پوشی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت اقلیتوں کے تحفّظ کے لئے اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے اس لاقانونیت کو روکے۔

پاکستان 1948 سے اقوامِ متحدہ کا رُکن ملک ہے، انسانی حقوق کے عالمی منشور کا آرٹیکل 18 بھی مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور اسے آزاد مرضی سے بدلا بھی جا سکتا ہے جبکہ کوئی مجبوری نہ ہو۔ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی میثاق کا آرٹیکل 18 ( 4 ) اور حقوقِ اطفال کے بین الاقوامی میثاق کا آرٹیکل 14 ( 2 ) بچوں کے مذہب کے انتخاب کا حق والدین کو دیتا ہے جب تک وہ اٹھارہ سال کے نہ ہو جائیں۔ پاکستان ان دونوں معاہدوں کی توثیق کر چکا ہے۔ عالمی معیارات کے مطابق جب بچے کے والدین یا سرپرست خاندان سمیت مذہب تبدیل کریں تو ہی ایک بچے کا مذہب تبدیل ہو سکتا ہے۔

حالیہ سالوں میں بھی جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی رپورٹنگ مسلسل ہو رہی ہے لیکن حکومتوں کا تسلی بخش جواب سامنے نہیں آ رہا۔ جس کی بڑی وجہ وزارتوں کے آپس میں اتفاق کا فقدان، اور مذہبی رہنماؤں اور گروہوں کی بلاوجہ مداخلت ہے۔ قوم کے سامنے یہ سوال ہیں ؛ کہ قانون سازوں کو جبری تبدیلی مذہب کے رجحان کو تسلیم کرنے کے لئے کتنے مزید ثبوت درکار ہیں؟ مزید کتنی کمسن بچیوں کو اغوا اور جبری تبدیلی مذہب کا سامنا کرنا ہے؟ کیا تبدیلی مذہب کی چھتری تلے ریپ قابلِ قبول ہے؟ بچیوں کی عمر کی آزادانہ تصدیق کے لئے اور کتنا وقت چاہیے؟ پسماندہ طبقات کے انسانی حقوق کی مزید کتنی پامالی ہو گی؟ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کے ساتھ متعدد دیگر جرائم مثلاً ہراسانی، اغوا، جبری شادی، کمسنی کی شادی، ریپ، گینگ ریپ، جبری جسم فروشی اور طاقت کا بے جا استعمال جُڑے ہوئے ہیں۔

بلا خوف ِ سزا، اقلیتی بچیوں کو اغوا کر کے زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور غیر قانونی طور پر بچی سے کئی گنا بڑی عمر کے مسلمان مرد سے شادی کروائی جاتی ہے اس میں کئی عوامل شامل ہیں جن کا تعلق ہمارے نظامِ انصاف کے اندر پائے جانے والے بگاڑ سے ہے۔ پولیس اور جوڈیشل افسران کی غفلت، پیچیدہ بلکہ ملزم کے ساتھ معاندانہ رویے متاثرہ پارٹی کو بڑی مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں اور کیس کو رپورٹ کرنے سے حد درجہ گریزاں ہوتے ہیں۔ جبری تبدیلی مذہب کی روش نے امتیازی قوانین اور معاشرتی تعصبات کے ساتھ مل کر مذہبی اقلیتوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔

بلاشُبہ، جبری تبدیلی مذہب انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی جبری تبدیلی مذہب کا کوئی واقعہ ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کرتا ہے حکومت اس پر قانون بنانے کے اپنے وعدے کا اعادہ کرتی ہے مگر پھر کچھ عناصر کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری سے گریز کر جاتی ہیں۔ اب جبکہ پاکستان میں انسانی حقوق کے قومی ادارے (NHRIs) اس بدصورت عمل کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو تمام فریقین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کو مل کر مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لئے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے مضبوط قانون سازی کرنی چاہیے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس سے پاکستان کا وقار اپنے شہریوں کی نظر میں بھی بلند ہو گا اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔ اس سے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے بچے اور خواتین محفوظ اور آسودہ ہوں گے اور پاکستان خوشحال اور پرامن ملک ہو گا۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading