بھول پن سے یا قصداً قیام ِ پاکستان کے بعد ہم نے اپنی شناخت مذہب سے جوڑ کر اپنی ترقی، خوشحالی اور بلند اڑان کے لئے دیگر اقوام اور مذاہب کو کمتر اور حقیر بنا کر پیش کرنے کو نسخہ کے طور پر اپنا لیا۔ چنانچہ اِس مقصد کے لئے تمام ذرائع ابلاغ ( نصاب ِتعلیم ،اخبار، ریڈیو ،ٹی وی، فلم ، ڈرامہ وغیرہ) کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ اِس کا رنگ پاکستانی معاشرے پر یوں چڑھا کہ ہماری روز مرہ زندگی میں دیگر مذاہب کو گالی کے طور پر استعمال کرنے کے چلن نے جنم لے لیا ۔ ہم نے تو عوام کو پڑوسی ملک سے نفرت کرنا سکھایا تھا جبکہ اِس کے بائی پراڈکٹ کے طور پر انہوں نے اپنے پڑوسی سے نفرت کرنا خود ہی سیکھ لیا۔ دوسرے مذاہب سے نفرت کرنے کا بیج بویا تو اُس کی کوکھ سے ساتھ والے فرقہ سے نفرت کرنے کی صورت ہم کو پھل ملا ۔
ضیا اور مشرف کے ادوار نفرت کی آبیاری اور بڑھوتی کے لئے عمل انگیز ثابت ہوئے ۔پاکستان کی سیاست پر اِس کے رنگ نے غیر جمہوری خیال اور روّیوں کو تقویت بخشی۔ مسلم لیگ نواز کے اوائل دور کی سیاست بھی نفرت اور دشنام طرازی پر مبنی تھی۔ بحرحال 2006ءتک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی عمل میں جمہوری کلچر کی بازیابی کی شروعات کی۔ ” میثاق ِ جمہوریت “ کے ذریعے پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے مل کر سیاسی استحکام کی جانب قدم اٹھایا تو غیر جمہوری طبقات کی جانب سے اِس قابل قدر سنگ ِ میل عبور کرنے کو مذاق ِ جموریت وغیرہ کہہ کر تاثر زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔
غیر جمہوری حلقوں نے انصاف سے محروم عوام کے لئے ”انصاف “ کے نام پر ایک جماعت تشکیل دی۔ اِس کے بانی محتر م عمران خان صاحب نے پاکستان کے ابتدائی پالیسی سازوں کے طریق کی پیروی کرتے ہوئے ”نفرت انگیزی “ کو بطور پالیسی اختیار کر کے دیگر جماعتوں کے ارکان کی تضہیک کرنے کا چلن اپنایا ۔ اُن کی دیکھا دیکھی اُن کے گرویدہ عوام بھی اِسی زبان اور چلن کی پیروی کرنے لگے۔
پی ٹی آئی کے جلسوں میں ٹی وی چینلز کی خواتین اینکرز کے ساتھ بد تمیزی کے واقعات رونما ہونے کی شکایت پر عمران خان معنی خیز مسکراہٹ سے اُس کا کوئی جواز ڈھونڈ لاتے ۔ چنانچہ کارکنان نے پی ٹی آئی کے موقف سے اختلاف رکھنے والے چینلز کے دفاتر پر پتھراؤشروع کر دیا۔ پارٹی کی جانب سے اپنے کارکنان کے اس رجحان کو لگام ڈالنے سے گریز کیا گیا ۔
پی ٹی آئی کے رہنما ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی ساتھ بیٹھے ہوئے دوسری جماعت کے رہنما کو دلیل سے جواب دینے کی بجائے تھپڑ رسید کرتے تو جماعت میں اُن کا وقار بلند ہوتا ۔ بانی پی ٹی آئی کو جب اپنے کسی ساتھی کی جانب سے ایسی متشدد کارروائی کی خبر دی جاتی تو وہ مبینہ طور پر خوش ہوتے۔
آج عالم یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے پر اسٹبلشمنٹ کے ٹاؤٹ ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ تحریک ِ انصاف دیگر جماعتوں پر فوج کی کٹھ پتلیاں ہونے کا دعوی کرتی رہی ہے۔ اب تحریک انصاف کے راہنما ایک دوسرے پر فوج کے ٹاؤٹ ہونے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے خیبر پختونخوا کے وز یر ِ اعلیٰ علی امین گنڈہ پور کے خلاف الزامات لگا کر ایک مہم شروع کی گئی ۔انہیں پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ کہا گیا،شیر افضل مروت اور سلیمان اکرام راجہ سمیت کئی ارکان پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کو ناکام قرار دے رہے ہیں ۔ پارٹی فنڈ کا حساب اور آڈٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری ، تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلیمان اکرام راجہ ، سیکرٹری شیخ وقاص اکرم ، سابق سیکرٹری اطلاعات اور موجودہ سینئر رہنما رؤف حسن اور شعیب شاہین کو اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ ہونے کا الزام دے رہے ہیں۔ جبکہ جواب میں مذکورہ رہنما فواد چوہدری کو ا سٹیبلشمنٹ کا ٹاؤٹ ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری کو اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے کے لئے پلانٹ کیا ہے۔ گزشتہ دنوں اڈیالہ جیل کے باہر فواد چوہدری نے شعیب شاہین کو ٹاؤٹ قرار دے کر اُنہیں تھپڑ مار دیا تھا۔ اِس پر پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے اپنے سخت رد عمل کے اظہار پر فواد چوہدری نے پوری سیاسی کمیٹی پر الزامات کی پوچھاڑ کر دی۔ اور سلیمان اکرام راجہ، رؤف حسن اور شیخ وقاص اکرم پر سنگین الزامات عائد کئے۔
پی ٹی آئی میں یہ چلن دیکھ کر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ اِس جماعت کے کارکنان نے سیکھ لیا ہے کہ آگے بڑھنا ہے تو دوسروں پر بے بنیاد الزام تراشی اور دشنام طرازی کرو اور اگر تشدد کرنا پڑے تو اُس سے بھی باز نہ آؤ۔ چنانچہ انہوں نے اِس چلن کو آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کے لئے ایک نصب العین کے طور پر اپنا لیا ہے۔ چنانچہ اب دشمن فوج کو لتاڑنے والے ابراہیم لودھی کے یہ ہاتھی واپس اپنی ہی فوجوں کو روند رہے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی کی قیادت اِس سے کچھ سبق حاصل کرنے کی استطاعت رکھتی ہے یا نہیں ۔ اِس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
*******