چھبیسویں آئینی ترمیم اور لاوارث اقلیتیں : خالد شہزاد

دنیا بھر میں حکومتیں عوام و الناس کے حقوق و آرام کے لیے دن رات محنت کرتی نظر آتیں ہیں وہیں پر اُن کے ملک میں ماحول اور حشرات و جانوروں کے حقوق کی بھی پاسبان ہوتیں ہیں۔ ہاں اگر نہیں ہے تو ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاست دانوں کا باوا آدام ہی نرالہ ہے۔ ہمارے ملک میں آئین و ترامیم ہر حکومت اپنی مرضی و منشا کے تحت کرتی ہیں، چاہے وہ جمہوری حکومت ہو یا پھر غیر آئینی و غیر جمہوری حکومت ہو۔

سن 2002 میں جنرل پرویز مشرف نے اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کے نام پر اقلیتوں سے اپنے نمائندہ بذریعہ ووٹ منتخب کرنے کا اختیار چھین لیا اور اُس کا متبادل اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں کا نظام متعارف کروایا۔ 2008 میں بے نظیربھٹو نے مشرف کے ساتھ ایک این آر او کیا تاکہ پاکستان میں شفاف الیکشن اور جمہوریت کا نظام نافذ کیا جائے، بد قسمتی سے بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا جس کا بھرپور فائدہ پی پی پی کو ہوا اور وہ مرکز اور سندھ میں اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اکتوبر 2010 کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے کمال ہوشیاری سے اٹھارویں ترمیم منظور کرلی تاہم اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے بنائے گئے کالے لیگل فریم ورک کے قانون کو من و عن ہی رہنے دیا، راوی اس بات پر حیران ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ملک بھر کی سیاسی، سماجی، مذہبی تنظیموں کے ساتھ نا صرف بحث و مباحثے کیے بلکہ پارلیمنٹ میں بھی خوب تقاریریں ہوئیں مگر کسی بھی پارٹی نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ پر بحث کرنا مناسب نا جانا۔

امسال(2024) کے متنازعہ الیکشن کے بعد جس طرح الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر بے رخی اور غیر جمہوری رویہ اپنایا اس کی نظیر کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملتی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8 رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد جس طرح کا ردِعمل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آیا ہے اور جس طرح کھل کھلا کر پی پی، ن لیگ، ایم کیو ایم، جمعیت علماءاسلام نے حمایت کی اس سے اندازہ ہو گیا ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں پی ٹی آئی کو سامنے رکھ کر اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی کا موجب بن گئیں ہیں۔

اور اب چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے جس طرح چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی، طریقہ کار اور اختیارات کو کم کر دیا گیا ہے اس سے صاف لگتا ہے کہ آئندہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اقلیتوں پر حملوں کے معاملات پر کوئی عدالت اور قانون و انصاف حرکت میں نہیں آئے گا، ماضی قریب میں جس طرح اقلیتوں کی بستیوں پر حملے ہوئے اور جس طرح پولیس اور انتظامیہ نے نا صرف حملہ آوروں کی پسِ پشت سہولت کاری کی بلکہ ان کو پرچوں سے خارج کر کے اُن کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی، صرف یہی نہیں بلکہ آئی جی پنجاب نے ملزمان کے بڑوں کو گلے لگا کر یقین دہانی کرائی کہ ریاست اُن کے ساتھ ہے۔

اور اب جس طرح ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے چیف جسٹس کے اختیار سو موٹو ایکشن یعنی آرٹیکل 184(3) کو سلب کیا ہے اس سے اقلیتوں کے اندر مزید خوف ہراس اور عدم ِتحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے اور اس بات کا بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور جن میں اقلیتوں کے حقوق و آزادی کے خوب صورت القابات موجود ہیں وہ صرف دکھاوا ہیں۔ اِس کے برعکس چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت اب اقلیتیں لاوارث ہو چکی ہیں۔۔۔جو کہ لمحۂ فکریہ ہے۔جاویدؔ ڈینی ایل کے اِس شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں؛
اپنے گھر سے وطن سے وفا کیجیے   :*: اَمن ہو قریہ قریہ دُعا کیجیے
درس دیتے ہیں اِنجیل و قراں یہی :*:  آدمی ہو تو سب کا بھلا کیجیے

نوٹ: ”تادیب“کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری ہیں۔”تادیب“ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading