کیا آپ جانتے ہیں کہ عام طور پر ایک افسر کو اُس کی افسری کا احساس اُس کے عہدے، اختیارات اور کرسی کے بعد کون دلاتا ہے؟ ۔۔۔ کوئی اور نہیں سب سے پہلے اُس کا چپڑاسی!۔۔
چپڑاسی اپنے افسر کا بیگ اٹھائے گا۔ اُس کی خوشامد کرے گا۔ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اُسے ہر دم اُس کی اہمیت کا احساس دلائے گا۔ اُس کو اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق لوگوں کی نفسیات اور عادات سے آگاہ کرے گا۔ اسی طرح دفتر کا دیگر عملہ پرسنل سیکرٹری و کلرک وغیرہ بھی مل کر آہستہ آہستہ ایک غیر اہم شخص کو اِتنا اہم بنا دیں گے کہ جن لوگوں کی خدمت کے لیے اُسے تعینات کیا گیا ہوگا، اُن لوگوں کی رسائی ہی اُس افسر تک ناممکن ہوجائے گی۔ گویا ایک یو آئی پی(اَن امپورٹنٹ پرسن) کچھ عرصے میں وی آئی پی(ویری امپورٹنٹ پرسن) بن جاتا ہے۔
یو آئی پی سے وی آئی پی کا بس یہی کلیہ ہے جس کا میں نے مختلف سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں حتی کی کلیسیاؤں اور منسٹریوں میں بھی مشاہدہ کیا ہے۔ بیگ اٹھانے والے آپ کو ہر جگہ مل جائیں گے۔
دنیاوی افسروں یا خدا کے خادموں کا بیگ اٹھانے میں کوئی برائی نہیں۔ یہ تابع داری، فرماں برداری اور شاگردیت کی بہت خوب صورت تصویر ہے لیکن میں آپ کی توجہ اُس محرک کی جانب دلوانا چاہتا ہوں جس کے باعث کوئی شخص اپنے افسر، استاد یا پاسبان کا بیگ اٹھاتا یا خود اُسے ہاتھوں پر اٹھا لیتا ہے۔ دراصل ایسے لوگ اس شخص اور عام لوگوں کے درمیان جن کی خدمت خدا نے اسے سونپی ہوتی ہے، حائل ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص لوگوں کو بتائے گا؛
۔”یہ باس یا پاسٹر صاحب کے آرام کا وقت ہے۔”
۔”سر کی ابھی ایک ضروری میٹنگ چل رہی ہے، آپ بعد میں آئیں”۔
۔”سر اپائنٹمنٹ کے بغیر کسی سے نہیں ملتے”۔
۔”کیا آپ نے آنے سے پہلے وقت لیا تھا؟”۔
۔”کیا سر نے آپ کو خودبلایا ہے؟” وغیرہ وغیرہ
گویا باس سے نہ ملوانے کے اُن کے پاس درجنوں بہانے ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ “منسڑ” جس کا لفظی ترجمہ “خادم” ہے سچ میں “وزیر” کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ہم بچپن سے کہانیوں میں پڑھتے آرہے ہیں کہ کسی ملک کا ایک بادشاہ تھا اس کا ایک وزیر تھا۔ گویا وزیر کا عہدہ بادشاہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔چپڑاسیوں، سیکرٹریوں اور کلرکوں کے بعد وزیروں مشیروں کا طبقہ ہوتا ہے جو کسی افسر کو یو آئی پی سے وی آئی پی بنا دیتا ہے۔
۔”سر، عام لوگ آپ کی جان کے خواہاں ہیں”۔
۔”سر، آپ کو ہائی سکیورٹی کی ضرورت ہے”۔
۔”سر، آپ پروٹوکول کے بغیر باہر نہ نکلا کریں”۔
۔”سر، حالات بہت سنگین ہیں آپ کا پرسنل باڈی گاڈ ہونا چاہیے”۔
لیں جناب افسر کی تیاری میں ایک اور گروپ کا اضافہ جو عام لوگوں کو افسر سے اس قدر دُور لے جاتا ہے کہ اگر کوئی افسر کی گاڑی کی راہ میں بھی حائل ہوا تو اُس پر بندوق تان دی جائے گی اور انتہائی صورتِ حال میں گولی بھی چلا دی جائے گی۔ آہستہ آہستہ سکیورٹی میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے اور ایک کے بعد دوسرا سکیورٹی گارڈ حتی کہ پوری بریگیڈ ہی بھرتی کر لی جاتی ہے۔ گاڑی بھی بڑی ہوجاتی ہے، سکیورٹی بھی بڑھ جاتی ہے اور عوام کی خدمت کرنے والا عوام سے ہی چھپنے لگتا ہے کیوں کہ وہ اب عوام کی مانند یو آئی پی نہیں رہا بلکہ وی وی آئی ـ(ویری ویری امپورٹنٹ) ہوگیا۔
افسوس کہ ہمارے ملک میں یونین کونسل کے سیکرٹری سے لے کر بیوروکریسی اور بڑی بڑی قومی و وفاقی وزارتوں تک یہی نمونہ ملے گا۔یہی ادارے جو عوام کی خدمت کے لیے ہوتے ہیں، عوام کو تو کسی کھاتے میں ہی نہیں سمجھتے۔ ظاہری بات ہے جب آپ عوام کی خدمت کے لیے بیٹھے ہیں اور ان کے جائز کام نہیں کریں گے تو بعض غصے میں تو آئیں گے۔ اس کا حل یہ ہے کہ عوام کے ایسے شدت پسند روّیے سے بچنے کے لیے عوام کےکام کردیے جائیں یا پھر عوام کا کام ہی تمام کردیا جائے۔ ہمارے ہاں سیکنڈ آپشن کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ اپنے ایک عزیز کے ساتھ ان کے سرکاری کام کے سلسلے میں مجھےکسی سرکاری دفتر جانا پڑا۔ کلرک صاحب نے کہا کہ یہ کام پیسوں کے بغیر نہیں ہوگا۔ کام بالکل جائز تھا لہذا میرے عزیز نے پراعتماد انداز میں پوچھا، “کتنے پیسے لگیں گےاور یہ پیسے کون مانگتا ہے؟
کلرک نے بھی بڑے اعتماد سے جواب دیا، “ہمیں اوپر تک پیسے دینے ہوتے ہیں”۔
میرے عزیز نے موبائل نکالا اور کلرک کو مخاطب کرکے بولے، “مجھے اوپر والوں میں سے کسی کا نمبر دیں، میری بھی اوپر والوں سے واقفیت ہے، میں خود پیسے بھجوا دیتا ہوں۔میرے کچھ پرانے دوست بھی اس شعبے میں ہیں، شاید کوئی واقف کار نکل آئے۔” بس یہ سننا تھا کہ کلرک کی ہوا نکل گئی۔ مجھے یاد ہے کہ اُس کام کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دینا پڑا اور کام بھی اُسی دن ہو گیا تھا۔
بعض اوقات افسر اتنے رشوت خور نہیں ہوتے جتنا یہ طبقہ ان کو آہستہ آہستہ ایسی عادات میں مبتلا کردیتا ہے۔ ظاہری بات ہے جب بڑی گاڑی ہوگی، جان کو خطرہ ہوگا، ہر کام کے لیے الگ نوکر چاکر ہوں گے کیوں کہ صاحب کو ان کا بیگ بھی اٹھانے نہیں دیا جاتا تو خود ہی سوچیں ایسے لائف اسٹائل کے لیے روپیہ پیسہ بھی تو درکار ہے۔ اس پیسے کا بندوبست بھی پھر وہی سٹاف کرتا ہے جس نے افسر کو اتنا بڑا افسر بنایا ہوتا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی حال آج خدا کے بعض نام نہاد خادموں، پادریوں اور بشپوں کا بھی ہے۔ جن کے اردگرد رفتہ رفتہ بیگ اٹھانے اور ان کو اپنے ہاتھوں پر اٹھانے والوں کا ایسا ٹولہ منڈلانے لگتا ہے جو اُن کو یوآئی پی سے وی آئی پی بنا دیتا ہے۔
اب درج بالا تمام صورتِ حال کا اطلاق پاکستان کی موجودہ کلیسیا پر کر کے دیکھئے۔ آپ کو لوگ خدا تک ماننے لگیں گے۔آپ کی پیروی یوں کریں گے گویا خدا کی پیروی کررہے ہیں۔ افسوس کہ وہی لوگ جو پہلے خادموں کی پیروی کرنے لگتے ہیں، کچھ عرصے بعد خادمین ان کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں؛
۔”پاسٹر صاحب آپ کی کرسی یہاں سامنے ہونی چاہیے”۔
۔”پاسٹر صاحب آپ اپنے اختیارات کا استعمال کیا کریں، ہر کسی کو اپنے ساتھ بے تکلف نہ ہونے دیا کریں”۔
اور پھر لوگوں کے چندے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی چاندنی میں پاسٹر صاحبان ایسے نہاتے ہیں کہ ان ہی لوگوں کے لیے پاسٹر صاحب عید کا چاند ہوجاتے ہیں۔ وہ ایک سلیبرٹی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ لوگ ان کو چھونا چاہتے ہیں، ان سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں مگر وہ پاک کلام کے فورا” بعد سکیورٹی اہل کاروں کے حصار میں اپنی بڑی سی گاڑی کی جانب لپکتے ہیں کہ شفا پانے والوں کے جمِ خفیر میں نہ جانے کن کن بیماریوں کے جراثیم والے لوگ ہوں جن کے چھوجانے سے خادم خود بیمار ہوسکتا ہے اور پھر اسے خود ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے گا۔ شاید یاسپٹل میں داخل ہونا پڑے تو پھر ان مریضوں کا کیا بنے گا جو اس سے اپنی شفا کے لیے دعا کروانے آتے اور اپنی استعداد سے بڑھ کر ہدیے بھی لاتے ہیں۔ان بے چاروں کے لیے سٹیج سے اُس کی دعا ہی کافی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ وزیر مشیر، چپڑاسی، کلرک سیکرٹری، ایلڈرز و چرچ یا منسٹری سٹاف کیوں اپنے یو آئی پی افسر کو وی آئی پی افسر بنا دیتے ہیں، کیوں ان کی الگ اور بلند کرسیاں بنا دیتے ہیں کیوں کہ اس طرح وہ بھی بلند ہوجاتے اور وی آئی پی بن جاتے ہیں۔ایک افسر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے آپ کو کس کی منت سماجت کرنی ہوگی، کس کے آگے دستِ درخواست اٹھانے ہوں گے، اُسی چپڑاسی کے سامنے جو روز اپنے افسر کا بیگ اٹھاتا ہے۔ اس طرح افسروں یا عہدے داروں کو جو عوام کی خدمت کے لیے مقرر ہوتے ہیں، عوام سے دور کرکے درمیانی طبقہ خود وی آئی پی بن جاتا اور افسر سے بھی داد سمیٹتا اور عوام کی دعائیں و بلائیں بھی لیتا رہتا ہے کہ جن کی دساطت سے ایک عام آدمی یعنی یو آئی پی کو ایک خاص افسر یعنی وی آئی پی تک رسائی حاصل ہوسکی۔
افسوس کہ یو آئی پی سے وی آئی پی تک کا سفر طے کرتے کرتے وہ افسر اپنی فطری شخصیت ہی کھو بیٹھتا ہے یا پھر دوہری شخصیت کا حامل ہو جاتا ہے جو منافقت کی ایک شکل ہے ۔
خدارا اگر آپ کسی عہدے پر فائز ہیں تو اپنے عہدے کو نہیں عہد کو یاد رکھیں خاص طور پر خدمت میں تو آپ جس بلاوے سے بلائے گئے ہیں، اُسی کے لائق چال چلیں۔ اپنے اردگرد منڈلانے والے ایسے درمیانی طبقے سے ہوشیار رہیں، عوام میں رہیں اور عوام کے دل جیتیں، ان کے دلوں میں راج کریں۔ آپ کو سکیورٹی کی فکر ہوگی اور نہ ہی کسی قسم کی ذلت و بے عزتی کا خطرہ۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******