آج کل وزیر اعظم سے لے کر آرمی چیف تک آئین کی بالادستی کی بات کرتے نظر آتے ہیں اور آئین سے روگردانی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ آج راوی آرمی چیف اور وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اقلیتوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے سلوک کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں ، قیام پاکستان کے بعد سے جس طرح اقلیتوں کو وقتاً فوقتاً اذیتوں سے دو چار کیا جا رہا ہے اور تسلسل کے ساتھ ان کے جائز حقوق سے سابقہ اور موجودہ حکومت پہلو تہی کر رہی ہے، ثابت ہو رہا ہے کہ حکومت صرف نعروں اور ووٹ کے حصول کی خاطر اقلیت کارڈ کھیل رہی ہے تاہم اس کے باوجود اقلیتیں آئین اور قانون کے دائرہ میں رہ کر ناصرف اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں بل کہ ملک کے دفاع کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی اقلیتوں کے ساتھ مردم شماری میں زیادتی کی جاتی ہے، نوکریاں دینے میں میانہ روی اختیار کی جاتی ہے، سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے جہاں اقلیتوں کے بچے پڑھنے کی بجائے پرائیوٹ مہنگے اسکولوں میں پڑھنے کو ترجیحی دیتے ہیں یا پھر وہ اَن پڑھ رہنا ہی گوارا کرتے ہیں۔سانحہء جڑانوالہ کے بعد ہمیں اُمید ہوئی کے شائد اقلیتوں کے لیے سوسائٹی میں کوئی نرم گوشہ تیار کیا جائے گا مگر بے سود، ہر میڈیا ٹاک میں اور اقلیتوں کے تہواروں کے موقع پر ایک ہی صدائے بازگزشت کرتی سنائی دیتی ہے ” کہ اقلیتوں کو مساوی حقوق اور مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ” لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کوئی بھی اقلیت وزیر اعظم ، صدر پاکستان، گورنر، وزیراعلی، آئی جی، وائس چانسلر اور آرمی چیف نہیں بن سکتاتو پھر مساوی حقوق کا نعرہ کیوں ؟ جہاں تک مذہبی آزادی ہے وہ آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت اقلیتوں کو ناصرف اپنا مذہب اختیار کرنے بل کہ اپنے مذہب کا پرچار کرنے کی بھی اجازت ہے، مگر مملکتِ خداداد میں ایسا ممکن نہیں کیوں کہ ریاست نے اقلیتوں سے منہ موڑا ہوا ہے اور ایک مخصوص خیالات اور عقائد کی مذہبی پارٹی کو کھلے عام اقلیتوں پر مظالم ڈھانے کی آزادی ہے۔اگست 2021 کو تھانہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں چند مسیحی نوجوانوں پر توہین مذہب کی ایف آئی آر کاٹی گئی کیوں کہ وہ گروپ کی صورت میں ماڈل ٹاؤن پارک میں بائبل سٹڈی کرتےہیں جن پر ایک مخصوص جماعت کے افراد نظر رکھتے اور موقع پا کر کرسچین نوجوانوں کو مار پیٹ کر پولیس کے حوالہ کیا، ان میں چند ایک کی ضمانت تو ہو گئی مگر وہ اب پاکستان کے مختلف شہروں میں گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔4 ستمبر 2024 کو راولپنڈی کے ریلوے پولیس نے محمد طارق ولد محمد فاروق کی درخواست پر دو نوجوان مسیحی سگی بہنوں اور تین نوجوان مسیحی لڑکوں پر توہین مذہب کی ایف آئی آر درج کروائی کہ ملزمان ریلوے لوکو کی کالو نی کے باہر گلے میں لاؤڈ سپیکر ڈال کر اپنے مذہب(مسیحیت ) کی تبلیغ کر رہی ہیں۔ ” گذشتہ سال سرگودھا میں جس طرح نذیر مسیح پر توہین ِ مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر اُس کی فیکٹری، کاروبار اور زندگی کا خاتمہ کرنے کے بعد بلوائیوں کی ضمانتیں کسی بھی طرح اقلیتوں کو احساس تحفظ دے سکتی ہیں ؟ 11اگست 2024 کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے اقلیتی مخصوص نشست کے رکن اسمبلی کرسٹوفر فیلبوس نے خطاب کے دوران دُکھ اور کرب سے کہا ” بہتر ہوتا کہ کرسٹوفر فلیبوس اپنی برادری کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتا تاکہ وہ ایوان کو بتاسکتا کہ اس کی کمیونٹی کے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کس کے پاس ہے۔” رکن اسمبلی نے مزید کہا کہ بہتر ہے کہ اقلیتوں کو مخصوص سیٹوں کی بجائے الیکشن کا حق دیا جائے تاکہ ہم بھی ووٹر کو جواب دہ ہوں، ہم بھی اپوزیشن کا بہترین رول ادا کر سکیں۔
پاکستان کی تمام بڑی جماعتیں روزانہ شام کو ہر ٹی وی کے ٹاک شو پر بانسری بجاتی نظر آتیں ہیں، سابقہ جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف سے چھٹکارہ کا کریڈٹ اپنے گلے میں ڈالتے ہیں تاہم مشرف کا خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا بنایا ہوا ایل ایف او کس منہ سے قابل قبول ہے؟ آج بھی سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب، مرکز ، کے پی، سندھ اور بلوچستان میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر سیاست کی جا رہی ہے بہتر یہی ہے کہ پرویز مشرف کے ایل او ایف کے تحت خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشتوں والا برانڈ ختم کرکے اقلیتوں کو برائے راست اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے تاکہ اقلیتوں کے اندر احساسِ محرومی ختم ہو اور وہ بھی پارلیمنٹ میں اپنا بہتر کردار ادا کر سکیں۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری ہیں۔”تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******