مجھے اب سوات نہیں جانا : امجد پرویزساحل

ہم پنجابی لوگ گرمی کے ستائے ہوئے ہرسال جون یا جولائی کو پاکستان کے شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں ہر طرف ٹھنڈک اور خوب صورتی آنکھوں کو آرام اور روح کو تسکین پہنچاتی ہے ۔محض چار دن کی سیر جیسے تین مہینوں کی گرمی کو ٹھنڈا کردیتی ہے۔ یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں قدرتی نظارے خدا کے وجود کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں ،فضاؤں میں چشموں کی حمد سنائی دیتی ہے، بادلوں کی اٹھکیلیاں انسانوں کے نتھنوں میں زندگی کے دن انڈیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن سوات کے اس زندگی بخش وطن میں جہنم کب آ گ بن جائے یہ سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے ۔ جہاں سیاح کو مہمان کہہ کر پکارا جاتا ہو ، جہاں گاہک کو رحمت کے فرشتہ سے تشبیہ دی جاتی ہو۔ وہاں کا انصاف اس قدر بے انصاف ہوجائے اب ڈرلگتا ہے ۔
ظلم جب ثواب سمجھ کر کیا جائے تو توبہ کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ 21 جون2024ء کو ہوا۔ ایک سیاح جو اپنے بیوی بچوں سمیت سوات میں چند دن گزارنے کے لیے کیا گیا۔ جس جگہ کو جنت کا ٹکڑا سمجھ کر وہ شخص وہاں گیا۔ اُسے کیا معلوم یہ جنت اس کے لیے جہنم بن جائے گی ۔ رحمان الرحیم کو ماننے والے اس قدر بے رحم بھی ہوسکتے ہیں جو کبھی ایک جیتے جاگتی جان کو پتھر مار مار کر ماردیتے ہیں تو کبھی اپنے جیسے ہم ایمان کو زندہ جلا دیتے ہیں ۔
اب تو جیسے خوف آتا ہے یہ سوچ کر بھی کہ اگر ہوٹل کے ویٹر کو کچھ برا لگ گیا تو بات کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔ اگر کسی چائے والے کی چائے نہ پسند ہونے سے یا بھاؤ کم کرنے سے بحث ہوگئی تو وہ مذہبی بحث میں بدل گئی تو کیا ہوگا۔
بازار میں جاتے ہوئے اگر کسی کو ہمارا لباس پسند نہ آیا تو کہیں ہجوم ا کٹھا ہونہ جائے۔ میں نے کچھ لوگوں کو سوشل میڈیا پر یہ کہتے بھی سنا ہے کہ پنجاب سے آنے والے لوگ ہمارے کلچر کو خراب کر رہے ہیں۔ہماری غیرت کو للکارتے ہیں ۔ عورتیں آزاد خیال ہونے وجہ سے پردہ کا خیال نہیں رکھتی جس کی وجہ سے ہمارے علاقوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا ہے۔ یعنی ہم جیسے مڈل کلاس لوگ جو چھٹیاں منانے سویٹررز لینڈ تو نہیں جا سکتے اپنے شمالی علاقوں کو ہی سوئٹرزرلینڈ سمجھ لیتے تھے۔ لیکن اب ڈر لگتا ہے۔
اب تو ان علاقوں یعنی سوات ، ناران ،مری وغیرہ میں رش اگر معمول سے زیادہ ہوجائے تو میزبان ہوٹلوں اور کھانوں کی قیمتیں بھی ڈبل ٹرپل کر دیتے ہیں۔ اپنے رویوں میں بھی سختی لے آتے ہیں سوچتا ہوں اگر کسی کو ہماری کوئی بات ناگوار گزر گئی تو جانے کیا ہوگا۔
خدارا ہم مرنا نہیں چاہتے ،اب ہمیں سوات نہیں جانا ۔ اب ہمیں ایسی جنت میں نہیں جانا جہاں خدا ہماری موت کا تماشہ دیکھ رہا ہو۔ کیونکہ میں نے تو سنا تھا جنت میں موت نہیں ہوتی تو یہ کونسی جگہ ہے مطلب یہاں کسی کی بھی غلط فہمی خطرے کے گھنٹی ہے۔ ہم جانتے ہیں ہمیں کوئی بچانے نہیں آئے گا۔ پولیس پرُتشدد ہجوم میں امن قائم کرنے کی خاطر ہمیں قتل کرنے کی اجازت دے دے گی۔ اُن کے پاس ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ہجوم کو اپنا کام کرلینے دیا جائے۔ پولیس نے ملک میں امن و امان کو قائم کرنے کے لیے ایک طریقہ ڈھونڈ لیا ہے کہ ہجوم کو قتل عام کر لینے دیاجائے ، گھر جلا دیئے جانے کی اجازت کیونکہ امن و امان کا مسئلہ۔ وہ اگر ہجوم کو روکیں گے تو معاملات دوسرے شہروں میں بھی بگڑسکتے ہیں۔ دین سے محبت کا تقاضا ہے کہ گھر جلا دیے جائیں۔ ملک کو بچانے کے لیے کسی ایک کو مرنا ہوگا یا کچھ کو جلنا ہوگا۔ کم از کم ہر ایک یا دو ماہ کے لیے امن پیدا کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہجوم کو قتل کی اجازت مل جائے۔
ویسے بھی سوات جیسے علاقہ میں بڑی دیر سے امن تھا اب اگر اس امن کو برقرار رکھنا ہے تو ہجوم کی رائے کا احترام ضروری ہے کیونکہ معاملہ بڑی حساس نوعیت کا ہے۔ پاکستان کا کوئی علاقہ بچاہو جہاں ابھی بھی امن کو خطرہ ہو تو کچھ گھر جلا دئے جائیں کچھ لوگ سنگسار کر دیے جائیں تاکہ امن قائم ہو سکتے ۔ سوات اب پُرسکون ہے یا اور کچھ نہیں تو اگلے چند ماہ کے لیے تو پُرسکون رہے گا۔جب تک کسی اور پر یہ الزام نہیں لگتا ۔ سمجھ لیں سوات بھی جیسے دیو ی دیوتاوں کا وطن ہے جہاں سارے علاقے بچانے کے لیے کسی ایک کا خون بہانا ضروری ہے مثلاً جیسے جڑانوالہ اب کافی محفوظ ہے ،سرگودھا بھی محفوظ ہے ، شانتی نگر،گوجرہ ،سانگلہ ،بادامی باغ ،پشاور آرمی پبلک سکول کے وجہ سے اب محفوظ ہے ۔قانوں نافذکرنے والے ادارے اب تسلی سے بیٹھ سکتے ہےجب تک سوات کے حوالہ سے بحث جارہی ہے ۔
یکے بعد دیگرے معاملات کی وجہ سے بات ویسے اب قومی اور پنجاب اسمبلی تک جا پہنچی ہے یعنی اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیاست دانوں کے کانوں پر تو جوں نہیں رینگتی ۔ میرا خیال ہے اب جوں رینگی ہے ۔اب دیکھیں یہ جوں کہاں تک رینگتی ہے تب تک اگلے واقعہ کے لیے تیار رہیں ( اللہ نہ کرے ایسا ہو) ۔باقی ۔۔۔ پاکستان پایندہ باد۔

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

One thought on “مجھے اب سوات نہیں جانا : امجد پرویزساحل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading