آخیر زمانے یا وقت کی پیشن گوئیوں کو کیلیفورنیا کی جنگل کی آگ سے جوڑنا دراصل پیشن گوئیوں کی غلط تشریح ہے۔جب ہم پیشن گوئیوں کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھتے ہیں تو انکے دنیا میں منفی اور بھیانک اثرات ہوتے ہیں؟ پوری تاریخ میں، بہت سے لوگ ان پیشن گوئیوں کو سمجھنے کے لئے اتنے پرجوش رہے ہیں کہ انہوں نے پیشن گوئیوں کی غلط تشریحات کرتے ہوے دنیا کو خطرے میں ڈال دیا۔ ایسے بہت سے واقعات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں لیکن مضمون میں، ہم ان اوقات میں سے کچھ مثالوں پر نظر ڈالیں گے جب لوگوں نے دنیا کے خاتمے اور آخری دنوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی غلطیوں کے بارے میں بائبل کی پیشن گوئیوں کو غلط سمجھا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ آخیر زمانے یا وقت کی نشانیاں اسی دور میں اور پر یہاں ظاہر ہو رہی ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ اس طرح کے بہت سے لوگوں کے لئے گمراہ کن نہیں ہے؟ لیکن چند لوگ یا مزہبی راہنما ابھی بھی بضد ہیں کہ خدا وہی قہر نازل کرنے والا ہے جنکا ذکر کتابوں میں کیا گیا ہے اور بار بار دنیا کے خاتمے پر تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان غلط فہمیوں سے پیش آنے والے (صرف مسیحی دنیا کے حوالے سے)چند اثرات کا ذکر ایسے ہے۔
صلیبی جنگوں میں پوپ اربن دوم نے مسیحیوں پر زور دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں مسلم قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ “مسیحی فوجی ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے مسیحیوں کی زمینوں پر حملہ کیا ہے اور انہیں لوٹ مار اور آگ کے ذریعے برباد کر دیا ہے۔ انہوں نے ہتھیاروں کی اس دعوت کی بنیاد کتاب ميں وحی کے ایک اقتباس پر رکھی جس میں خدا کے لوگوں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے درمیان آنے والی جنگ کی بات کی گئی تھی۔ پوپ اربن دوم نے 1095 میں پہلی صلیبی جنگ کا آغاز کرتے ہوئیے، ان لوگوں سے نجات اور گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا جنہوں نے “صلیب اٹھائی” اور سلجوق ترکوں سے مقدس سرزمین کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے لڑے۔ یہ وعدہ شروع میں نائٹس اور امرا کے لئے تھا لیکن نچلے طبقے کے بہت سے لوگوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ جنگ میں مرنے والوں کے لیے جنت میں فوری داخلے کی یقین دہانی صلیبی جنگوں میں شرکت کا ایک اہم محرک تھا۔ اس جنگ میں شمولیت کے لئے انہوں نے مکاشفہ کی کتاب (بائیبل کی آخری کتاب) کے ایک حوالے پر رکھی جس میں خدا کے لوگوں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے درمیان آنے والی جنگ کی بات کی گئی تھی۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک جنگی سلسلہ صدیوں تک جاری رہا جس میں بہت بڑی خونریزی اور تصادم ہوا جس کے نتیجے میں 5۔1 ملین لوگ مارے گئے۔ ان جنگوں کی بنیاد پیشن گوئیوں کی غلط تشریح ہی تھی۔
مسیحیوں کے درمیان عظیم بیداری(اٹھرویں صدی کی تحریک) کے دنوں میں یسوع کی دنیا ميں واپسی کے لیے بے چینی پائی جاتی تھی، بہت سے لوگوں نے اپنی روزمرہ کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا جیسے کہ کھیتوں کی دیکھ بھال یا ٹیکس ادا کرنا، جس سے ملک بھر میں معاشی خلل پڑا۔ ملیرائٹس (ولیم ملر کے پیروکار) نے 1831 نے یسوع کی زمین پر واپسی کے لیے کئی تاریخوں کا ذائچہ لگایا جس کی انہوں نے بائبل کی پیشن گوئیوں کو سامنے رکھتے ہوے بار بار گنتی کی، آخر کار 22 اکتوبر 1844 کی تاریخ مقرر کر دی۔ یہوواہ وٹنس (1914) چارلس ٹیز رسل نے بتایا کہ یسوع 1914 میں واپس آئے گا۔ ہربرٹ ڈبلیو آرمسٹرانگ نے پیشگوئی کی کہ یسوع مسیح 1925 اور 1975 درمیان کسی وقت واپس آئے گا۔ لیکن وہ اسے دیکھے بغیر ہی مر گیا۔
ہیرالڈ کیمپنگ، ایڈگر ویزینٹ، اور (خود کو ایک نبی کہنے والی خاتون) ایلن گولڈ وائٹ نے 1850 کی دہائی میں کہا کہ یسوع “چند مہینوں” میں واپس آنے والا ہے، اس بات کو 174 سال گزر چکے ہیں مگر اسکی پیشن گوئی پوری نہیں ہوئی۔ مسز وائٹ نے مئی 1856 میں بیٹل کریک، مشی گن میں ایک میٹنگ کے دوران ایک اور دلچسپ پیشن گوئی کی۔ اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ میٹنگ میں تھے ان میں سے کچھ مر جائیں گے، اور “کیڑوں کی خوراک” بن جائیں گے۔ ان میں سے جو زندہ رہیں گے اور “سات آخری آفتوں کا لقمہ” بن جائیں گے، جبکہ دیگر “زمین پر رہیں گے تاکہ یسوع کے آنے پر اٹھائے جائیں گے۔ اسی طرح کے کئی اور بھیانک واقعے ہیں، ایک مبلغ اور شہری حقوق کا کارکن جسکا نام ریورنڈ جم جونز تھا نے پیپلز ٹیمپل کے نام سے کیلفورنیا مين جرج بنایا تھا، اسنے بائبل سے آخیر زمانے کی پیشن گوئیوں سے اپنے ممبران کو یہ جگہ چھوڑنے پر آمادہ کیا اور نومبر 1978 میں جنوبی امریکہ کے ایک جنگل کے وسط میں سائینائیڈ سے لیس فلیور ایڈ پینے پر راضی کر کے 900 سے زیادہ لوگوں کو ان کی موت کی طرف لے گیا۔ ایک ایسے ہی واقعہ میں کینیا کے پاسٹر نے جنت کی پیشن گوئی کا حوالہ دے کر ممبران کو بھوکا رہنے کو کہا حس سے کئی لوگ جنگل میں بھوک سے مر گئے۔
یہ ہیں کتاب مقدس کی غلط تشریحات کے بھیانک نتائج۔ اور اج جب ہم دوبارہ اسی موڑ پر کھڑے ہیں کہ کسی بھی قدرتی یا انسانوں بنائی گئی تباہی کو مذہب کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں اور ایسے ہبیان کیا جاتا ہے جیسے روحانی کتابوں میں ان تباہ کاریوں کا ذکر انہی ناموں اور جگہوں کے ساتھ کیا گیا ہے جہاں آج یہ پیش آ رہے ہیں کیونکہ انکو موڑ توڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ چونکہ اب ذرا میڈیا کا دور ہے اور تصاویر اور تباہ کاریوں کی وڈیوز کو ڈاون لوڈ کرنا اور ان ميں ردوبدل کرنا آسان ہے اور پھر مکسینگ کے ساتھ روحانی کتابوں کی آئات بھی دہرائی جا سکتی ہیں، جسے “اپنے مقصد کے لئے نیکنالوجی” کہا جا سکتا ہے۔ موجودہ کیلیفورنیا کی آگ پر نبوت کرنے کے سلسے میں کچھ مسیحی گروپس اور مسلم گروپس لگتا ہے “ایک پیج” پر آ کر اس قدرتی آفت کو روحانی آفت قرار دے رہے ہیں۔ جی ہاں اس میں کوئی انکار نہیں کہ اسرائیل کی غیر متناسب انتقامی کارروائی کے سبب غزہ کی پٹی ميں معصوم لوگوں کا جانی نقصان ایک انسانی المیہ ہے۔ لیکن اسے امریکہ سے خدا کا بدلہ جو لاس اینحلس کی آگ کی شکل میں ہے، نہیں کہا جا سکتا۔ اور نہ ہی اس کو پرانے عہد نامے کے خدا کے مہر سے جوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے اوپر خوشی منائی جا سکتی ہے جس کی کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ اگر یہ خدا کا بدلہ ہی ہے تو شائد انسانی جانی نقصان کی تناسبت میں کہیں پر گڑ بڑ ہو گئی ہے اور یہ وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو ایسی ٹک ٹاک وڈیوڑ اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ اگر ہالی ووڈ اتنا ہی گناہ ذدہ علاقہ ہے (ویسے تو فلمی دنیا گناہ گاری کے لئے مشہور ہے، ہالی ووڈ ہو، بالی ووڈ ہو یا لالی ووڈ ہو)تو ہالی ووڈ کی اداکارہ “انجلینا جولی” کو پاکستان ميں سیلاب ذدگان کی مدد کے لئے پاکستان میں آنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ اور موجودہ ٹک ٹاکرز نے اس کے خلاف وڈیوز کیوں نہیں بنائی؟
اب ذرا خدا کے قہر کی طرف دوبارہ رخ کرتے ہیں۔ نیویارک پر ستمبر 11 کے دہشت گرد حملے کو بھی خدا کا قہر قرار دیا گیا اور مکاشفہ کی کتاب ميں سے اسے بابل شہر سے تشبیہ دی گئی جو مخالفِ مسیح کا صدر مقام ہوگا۔ کوڈ 19 کو آخیر زمانے کی نشانی کہا گیا، بحرہ عرب کے سونامی کو بھی “اینڈ ٹائم” کی نشانی کہا گیا، اسی طرح عرب-اسرائیل کی 1948 کی جنگ کو بھی ہرمجدون کی لڑائی کہا گیا۔ اس سے پہلے یہی القاب بلیک ڈیتھ (بلیک ڈیتھ ایک بوبونک طاعون کی وبائی بیماری تھی جو یورپ میں 1346 سے 1353 تک پھیلی تھی) کو بھی آخیر زمانے کی وبا کہا گیا، دنیا میں کہیں بھی زلزلہ آ جائے اسے خدائی قہر کہا جاتا ہے، پہلی اور دوسری جنگ عظیموں کو دنیا کے خاتمے سے منسوب کیا گیا۔ روحانی کتابوں کی پیشن گوئیاں چوں کہ علامتی ہوتی ہیں مگر ہمارے مذہبی مبلغ ان کی اپنے مطلب کی تشریح کرنے ميں دیر نہیں کرتے جب کہ وہ جانتے ہیں کہ کتابوں ميں واضع لکھا ہے کہ جب بھی خدا نے کسی قوم یا علاقے پر قہر بھیجا وہاں پہلے اپنے نبیوں کو بھیجا۔ جیسے نوح کے طوفان کے وقت، نوح کو بھیجا، نینواہ کی تباہی سے پہلے یوناہ نبی کو بھیجا۔ بنی اسرائیل اور ہیکل کی تباہی سے پہلے حبقوق، حجی، یرمیاہ، میکاہ اور یسعیاہ کو بھیجا، مگر لاس اینجلس کی آگ سے پہلے تو کوئی نبی نہیں آیا، اگر یہ قہر ،خدا کی طرف سے تھا۔ اگر ہم خدا کی طرف سے دُنیا ميں اجتماعی سزا کو مان بھی لیں تو پھر “عدالت کے دن” کو سمجھنے میں دشواری ہوگی۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں بہت سے ڈیجیٹل نبی پیدا ہو گئے ہیں جو کتابوں میں دی گئی پیشن گوئیوں کی غلط تشریح کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی پیشن گوئیوں مصروف ہیں جس کی ایک مثال انڈیا کے ایک مبشر اور یوگنڈا کے دوسرے مبشر نے کہا کہ ہميں ترکی کے 2023 کے زلزلے کی پہلے سے نبوت تھی۔ کوئی ان سے پوجھے کہ اگر تمہیں معلوم تھا تو تم نے ترکی کے لوگوں کو کیوں نہیں بتایا؟
لیکن کیا ہمیں کیلیفورنیا کی آگ پر خوشی منانی چاہیے یا خدا سے دعا کرنی چاہیے کہ ایسا وقت کسی پر بھی نہ آۓ۔ وہ لوگ یا وہ ملک جن کے پاس وسائل ہیں وہ تو ایسے حالات سے جلدی نکل آتے ہیں مگر کم وسائل کے لوگوں کا انحصار باہر کی امداد پر ہوتا ہے۔ لیکن اصل عذاب تو تب آتا ہے جب امداد کی رقم مستحق لوگوں تک پہنچنے سے پہلے ہی اشرافیہ کی تجوریوں ميں چلی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ کیلیفورنیا تضادات کی سرزمین ہے، بے مثال قدرتی خوبصورتی اور خطو ں کی ایک رینج ہےاسے کچھ لوگ ایک جنت سے تشبیہ دیتے ہیں جب کہ اس کا نام “گولڈن سٹیٹ ہے”۔ یہ سٹیٹ ایک ہی وقت میں زلزلے، سیلاب اور خشک سالی، مٹی کے تودے اور آگ کا شکار رہتی ہے۔ جو لوگ ریاست کے زیادہ کمزور حصوں میں رہتے ہیں وہ فضل اور نزاکت کی اس کمزور سطح پر رہنا سیکھ چکے ہیں۔ ہالی وڈ (جسے آج کل گناہ کی انڈسٹری کہا گیا ہے) کی کچھ افسانوی حیثیت مادر فطرت اور اس کے وہم اور افسانوی کہانی سنانے کی طاقت پر منحصر ہے، کمزور لیکن پائیدار، زمین کے خوفناک خوف اور چکرا دینے والے عجوبے کو کھینچتی ہے۔ ویسے بھی کیلیفورنیا نہایت فعال زلزلے کی فالٹ پر واقعہ ہے۔ اس کے باوجود یہ علاقہ دنیا کو ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے، پناہ گزیروں کو پناہ دیتا ہے، حکومتی ٹیکس کے لئے امریکہ ميں پہلے نمبر پر ہے جس سے امریکہ دوسرے ممالک کی مدد بھی کرتا ہے۔ سال 1902 سے یہ مسیحی مذہب کا مرکز ہے۔ موجودہ آگ کی تباہ کاریوں کا تخمینہ 150 بلین لگایا گیا ہے۔ اور امریکی حکومت نے پہلے ہی کیلکفورنیا ڈیزاسٹر فنڈ قائم کیا ہوا ہے۔ چوں کہ امریکہ ميں ہر عمارت کی انسورنش ہوتی ہے اس لئے جن لوگوں کے گھر جلے ہیں انہیں دوبارہ بحال ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
ایک مسلم عالم دین جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے آج ایک خوبصورت وڈیو پیغام ریکارڈ کروایا ہے، انہوں نے کہا کہ “یہ کیلیفورنیا کی آگ خدا کا عذاب نہیں لیکن ایک وارننگ ہو سکتی ہے۔ خدا نے دنیا بر جب بھی عذاب بھیجا، اس نے پہلے ایک پیغمبر بھیجا تاکہ نیک اور بد کو علیحدہ کیا جا سکے اور اس کے لئے نوح کے طوفان کی طرح ایک کشتی بنائ”۔ اس اتوار کے دن ان مسیحیوں نے جن کے گھر اس آگ میں جل گئے انہوں نے اکٹھے ہو کر گھروں کی راکھ کے اوپر خدا سے دعا کی اور خدا کی ستائش پر ہیلیلویاہ کے گیت گائے کہ خدا تو عظیم ہے اور ہمارا ایمان ہے تو ہمیں جلد بحال کرے گا۔ کیلیفورنیا اور غزہ کی تباہی عام انسانوں کو “راکھ سے عمل یا کھنڈرات سے ایکشن” کا سبق سیکھاتے ہیں۔ بجائے اس کہ ہم ایک دوسرے کی عدالت شروع کر دیں، ہمیں مصیبت زدہ افراد کی مدد یک جہتی سے کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے ممالک اور گرپوں پر تنقید کرنا ہر ایک کا حق ہے مگر آفت زدہ لوگوں کا اپنی ذہنی تسکین کے لئے تمسخر اڑانا اور “خدا کی عدالت” سے پہلے ان کو مذہبی عدالت ميں کھڑا کرنا “خدا کے ساتھ برابری ” کے زمرے میں آتے ہیں۔ جس سے ہر ذی عقل انسان کو اجتناب کرنا چاہیے۔ ہماری دُعا ہے “اے خدا ! مصیبت زدہ لوگوں کے لئے وسائل کے دروازے کھول دے، اور وسائل مہیا کرنے والوں پر اپنی برکت کے دروازے کھول دے۔ آمین۔
*******