یومِ اقلیت (11اگست 1947ء) کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے خطاب میں فرمایا؛
۔”پاکستان میں بسنے والے اقلیت آزاد ہیں اور وہ اپنے عقیدہ کے مطابق اپنے گِرجا گھروں، مندروں اور گوردواروں میں اپنی عبادات اپنے ایمان و عقیدہ سے کر سکتے ہیں”۔
قائد اعظم کو اس بات کا اندازہ تھا کہ ہندوستان سے آزادی کے وقت بھی کرسچین قائد اعظم کے شانہ بشانہ تھے اور پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور تقسیم کے بعد فوج، انتظامیہ، عدلیہ، صحت اور تعلیم کے اہم شعبہ جات کرسچین کمیونٹی کے ہیں اور ہندوستان ہجرت کر جانے والے ہندو اور سکھ اپنے زرعی رقبہ جات، حویلیاں اور کاروبار چھوڑ گئے جو تمام کے تمام بحق سرکار ضبط کر لیے گئے، اسی تناظر کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم نے اقلیتوں کی آزادی اور حقوق کی ضمانت دی۔
۔1973ءکے متفقہ آئین میں بھی اقلیتوں کی آزادی اور حقوق کی ضمانت دی گئی تاہم ذوالفقار علی بھٹو نے کرسچن کمیونٹی کے زیرِ اہتمام چلنے والے تعلیمی ادارے حکومتی تحویل میں دے کر کرسچین کمیونٹی کو نا صرف معاشی طور سے نقصان پہنچایا بلکہ ان کو تعلیمی میدان میں بھی پستی کی جانب دھکیلنے کی بنیاد رکھی، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ملک میں مذہبی تفریق کی عملی طور پر پہلی عمارت کھڑی کی۔ 1980ءمیں چیف آف آرمی سٹاف اور ڈکٹیٹر ضیا الحق نے اپنا نظریہ اسلام متعارف کروایا جس نے آہستہ آہستہ فرقہ واریت اور مذہبی نعفرت کو دوام بخشا اور اپنے فقہی نظریات کو دس سال تک ملک کے طول و عرض تک پھیلا دیا جو آج ایک خوفناک جنگل کی شکل میں موجود ہے۔1995ءکو نواز شریف نے قومی اسمبلی سے توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن کی قراردادکے ذریعہ سزاؤں کا بل بھاری اکثریت سے منظور کروا لیا جو بعد میں پنجاب اسمبلی سے بھی من وعن منظور کروا لیا گیا جس کا پہلا شکار منظور مسیح، امانت مسیح اور رحمت مسیح ہوئے۔ اِسی قانون کی آڑ میں 1996ء کو شانتی نگر کو اس وقت کی شدت پسند مذہبی جماعتوں جماعت الدعوءاور سپاہ صحابہ کے عاشقان نے لوٹ مار کرنے کے بعد ایک خاص کیمیکل کے ذریعے گھروں کو نذر ِآتش کر دیا جس نے لوہے سے بنی ہر چیز کو پگلا دیا۔
۔1999ءکو جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور کچھ عرصہ بعد ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگا کر ملک میں بلدیاتی انتخابات سمیت عام انتخابات کا اعلان کیا جس میں اقلیتوں کو الیکشن کے ذریعہ اسمبلیوں میں سلیکشن کا طریقہ کار دیا تاکہ اقلیتوں کو بلا خوف و خطر قومی دھارے میں لایا جائے اور ملک میں فرقہ واریت اور مذہبی تفریق کا خاتمہ کرکے روشن پاکستان بنایاجائے۔کرسچین کمیونٹی اور احمدیوں کے خلاف اس وقت ختمِ نبوت انٹرنیشل کے کارکنان متحرک تھے اور ان دو اقلیتوں کے خلاف توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے پرچے تواتر سے کروا رہے تھے جسکی وجہ سے کرسچین کمیونٹی خوف کا شکار تھی۔ اِسی مقصد کے تحت اس وقت قومی و صوبائی اسمبلیوں اور مختلف سماجی فورم پر قانون اور سزاو¿ں میں ترامیم کی بدولت تبدیلی لائی جائے مگر کامیابی نا مل سکی تاہم ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے ایس پی لیول کے آفیسر کو اِنکوائری کا اختیار دیا گیا جس پر آج بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا جسکا بھر پور فائدہ تحریک لبیک پاکستان اُٹھا رہی ہے۔
۔2014ءمیں میاں محمد نواز شریف طویل جلا وطنی اور اقتدار کے بعد دوبارہ وزیر اعظم بنے تو اُنہوں نے ملک میں جاری دہشت گردی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی خاطر نیشنل ایکشن پلان تیار کیا مگر وہ بھی اُن کے مختصر مدت کے اقتدار میں ادھورا رہا۔تاہم اُن کے اقتدار کے دوران ہی ملک میں ایک نئی جماعت تحریک لبیک پاکستان کا تعارف خادم حسین رضوی کی صورت میں ہوا، خادم حسین رضوی کے اقلیتوں بارے نظریات و خطبات کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں بلکہ اس نے مسیحیوں اور احمدیوں کے خلاف واشگاف الفاظ میں قتل اور قبضہ کے بیانیہ کو اخبارات اور نیشنل میڈیا کی لیڈ سٹوری کے طور پر پھیلایا؟ مگر اس وقت کی حکومتیں بھی اس کے سامنے بے بس نظر آئیں۔تاہم اس کا پھیلایا گیا خوف اور نظریہ آج ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہرا ہو گیا ہے۔
موجودہ آرمی چیف جنرل حافظ منیر نے گزشتہ ہفتے اپنے خطاب میں واضع پیغام دیا کہ ”آئین و شریعت کو نہ ماننے والے پاکستانی نہیں“۔ اس بیان کے فورا بعد تحریک لبیک کراچی کے ایک کارکن نے یوم اقلیت ۱۱ اگست کو منانے کے حوالہ سے چرچ سے ملحقہ گراؤنڈ میں بیٹھ کر چرچ انتظامیہ اور سماجی کارکنان کے خلاف سخت ویڈیو پیغام جاری کیا تاکہ اقلیت اس روز اپنے حقوق، آزادی اور برابر شہری ہونے کے لیے حکومتِ وقت کو غفلت کی نیند سے بیدار کریں مگر اس ویڈیو سے قبل ۶اگست کو اسلام آباد ہی میں ٹی ایل پی کے ایک کارکن کی جانب سے یوم اقلیت والے روز ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کو روکنے کی خاطر ڈی سی اسلام آباد کو درخواست دی۔
گذشتہ دنوں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں صائمہ نامی ایک کرسچین خاتون پر توہینِ قرآن کی ایف آئی آر درج کرکے گرفتار کر لیا گیا۔ مَیں پاک فوج کے سربراہ جنرل منیر صاحب کی توجہ اُن کے بیان کی طرف دلانا چاہتا ہوں تاکہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں جو اپنے اپنے مذہب اور عقیدہ کے مطابق عبادات اور اپنی زندگی گزار رہے ہیں اُن کو کوئی گَزَند نا پہنچے۔ آرمی چیف صاحب آپ کے بیان کے بعد جس طرح ٹی ایل پی کراچی اسلام آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں متحرک ہو گئی ہے سے تاثر پھیل رہا ہے کہ جیسے سب کی آپ کے بیان کی روشنی کی وجہ سے ہے۔
کرسچین کمیونٹی کے علاوہ دوسری اقلیتیں بھی اس وقت خوف کے سائے میں رہنے پر مجبور ہیں۔ آپ اگر انصاف نہیں دے سکتے تو ٹی ایل پی کی احمدیوں کے بعد کرسچین کمیونٹی کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت پاکستان کے روشن چہرہ کو نقصان نا پہنچائے کیوں کہ دنیا میں اب مذہبی طور سے تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہیں یہ نہ ہو کہ آپ کا اسلامک فوبیا کا نعرہ مغرب، امریکہ اور آسٹریلیا میں تنہائی کا شکار نا ہو جائے۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ ٹی ایل پی کو کنٹرول کرکے پاکستان کے روشن پہلو کو داغ دار ہونے سے بچایا جائے۔
آخر میں موجودہ حالات کے نتاظر میں جاوید ڈینی ایل کی غزل کے چند اشعار اپنے قارئین کی نذر کررہا ہوں جو میں اُن کی فیس بک وال سے نقل کر رہا ہوں؛
عجب تماشا سا چل رہا ہے
غریب ہاتھوں کو مل رہا ہے
پنپ رہی ہے منافقت بھی
عروج پستی میں ڈھل رہا ہے
اِسی لیے تو وہ مر رہا ہے
حسد کی بھٹی میں جل رہا ہے
یہ کون تاریخ کو بدل کے
ہمارا چہرہ مسل رہا ہے
کسی کو بے جا صلیب دینا
یہ کام صدیوں سے چل رہا ہے
وہ کہہ رہا ہے اُسی کو کافر
کہ جس کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے
لُٹا کے تن من گنوا کے حرمت
وہ رفتہ رفتہ سنبھل رہا ہے
رہو گے خاموش تو مرو گے
یہ فیصلہ تو اٹل رہا ہے
اُسی کے جاویدؔ ! شر سے بچنا
جو آستینوں میں پل رہا ہے
پاک افواج زندہ باد، پاکستان زندہ باد
نوٹ: ’’تادیب‘‘کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ ’’تادیب‘‘ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******