ہر ایک لفظ خیال کا مجسمہ ہوتا ہے جو کسی کے یا تو کپڑے اُتار دیتا ہے یا پہناوا بن کر اس کی آبرو کا ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ جس سے تاریخ ایک گواہ ، ادب ایک ذمہ دار ، مصنف ایک لکھاری ، شاعر ایک خیال کا پیکر اور وہ لفظ بذات خود نمائندہ بن جاتا ہے۔ یہ نمائندگی فرد کی زندگی سے لے کر دنیا کی حددو کو چھوتی ہے۔ جو سمجھتا ہے وہی معانی کا فن دے کر تشریحات کرتا جاتا ہے۔ جس سے جدیدیت کا ولولہ اور ڈکشن کا غلبہ نمودار ہوتا ہے۔طرح طرح کے انتحاب اور رُجحان جنم لیتے ہیں۔ تب ادب کی اکلوتی اُمید تنقید یہ کام کرتی ہے۔جس سے راستہ ہموار ہوتا ہوا تحقیق کے دریچے کو آگاہی کی دستک دیتا ہے۔ یہ صرف وہاں ہوتا ہے جہاں پہ آدھے کپڑے پہن کر بھی سچ کوہوا ملتی ہے۔ ان کے ہاں اس طرح سے ایسا دیکھنے میں نہیں ملا کہ بابا جی ننگے ہوں تو پہنچی ہوئی ہستی قرار دے دو۔ ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں نظروں میں ظاہری کپڑا اور باطنی میں بے حیائی زور زور سے چیخ رہی ہو کہ جنت کی روبکار جاری ہو چکی ہے۔ چاہے جو بھی ہو جائے اب جنت کا ٹکٹ مرحوم ابا جی کٹوا کر گئے ہیں جو ہمیشہ دوسروں کو نیچا ، نیچ طبقہ کو حقارت کی نگاہ اور خود کو عالم اعلیٰ خود قرار دے چکے ہیں۔ ایسی جگہوں پر پورے پڑےتن پہ ہونے باوجود سچائی کہیں نہیں ملتی بلکہ سچ ویرانوں میں تنہا ملا جب مٹی کے نیچے جا بسے۔
قلم کی نوک سے تراش و خراش کا فن ، فنکاری میں بدل کر عالم کو ایک دم علم کی کوکھ سے متعارف کرواتا ہے پر یہاں پورے کپڑوں میں آدھا بھی گمان نہیں۔ پورے کپڑوں میں ملبوس برخوردار جناب نواب زادے ، مفکر و مفسر ، چور اُچکے ، چودھری صاحب ، عزت مآب، قبلہ شریف ، علامہ و مولانا جیسے طویل القابات و آداب اپنے نام کے ساتھ لگا کر بھی سچ کی مہر رتی برابر ثابت نہ کر پائیں تو سمجھ جائے کہ اندر باہر سب روزہ دار ہیں لیکن پانی کا گھونٹ ، حقے کا کش اور روٹی کا ٹکڑا سب ان کے نزدیک کج فہم ہیں۔ اس کی وجہ یہی کہ پورے کپڑے پہن کے بھی قصہ المختصر بلی ماروں کا راج اور بے نکاح کی سرکار ۔۔۔ عبادت گاہ نہ درس گاہ ان سے محفوظ تو بندہ خدا پوچھے تو پھر تم سے تو بہتر وہ لوگ جو تمھارے نظروں میں کافر ہیں آدھے کپڑے پہن کر بھی سچ پورا بول کر یہ دلیل دے رہے ہیں کہ روزہ رکھ کر جھوٹ بولنے سے بہتر ہے کہ نہ رکھ کے سچ بول لو۔ کوئی اخبار کا حصہ یا ٹیلی وژن کا منظر دیکھ ، ہمیشہ ان ادبی مباحثوں کی علمی گتھیاں تباہی کا منظر کسی ڈرامے کا سین دے رہا ہوتا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے سوچیے جس کو آپ ڈرمے کا نام دے رہے ہیں اس میں موجود کردار خود کتنا بڑا ڈرامے باز ہو گا۔۔۔۔؟
اس میں کوئی شبہ نہیں یہاں تحصیل علم کی جگہ لمبا چُغہ ، ڈاڑھی ، پگڑی ، تسبیح، عِطر، مسواک ، گاڑی ، موبائل، وائی فائی اور ان کا سفاک پن ہے۔ پر ان سب پر وہ آدھے کپڑے والے حاوی ہیں جن کی یہ سب ایجادیں اور کارنامے ہیں۔ ان کی ایجادات کو ہاتھ میں لیے فخر مدہوش و سخن آوارہ کے سب پہنے کپڑے اتار کر ثابت کر دیا کہ اگرچہ شیشہ کمزور ہے پر ہر وقت سچ بولتا ہے۔ اس رد کیے ہوئے شیشہ کو کبھی کمزور نہ سمجھو کیونکہ جب کسی کے ہاتھ پر لگتا ہے اس کی رگ رگ کاٹ کر خون نکال دیتا ہے۔ اس لیے اکثر بازار جاتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ کپڑوں والی دُکانوں کے باہر پورے کپڑے پہنے ہوئے کئی مرد و زن ملے جو اندر سے مُردہ اور بے جان ہیں۔ ان کو معلوم یہ سب کے سب مُردہ اور کوکھلے ہیں۔ ان کے اوپر پورے کپڑے ہیں لیکن اندر سب جھوٹ اور بناوٹی ٹھگ ہیں جو نہ بولتے ، نہ سُنتے اور نہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے آپ میں سب سے بڑا جھوٹ ہیں۔ تصدیق کرنی ہے تو دیکھ لو پھر اپنے گردونواع میں گھر میں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں درباروں پر چڑھاوے کے لیے سالم بکرے اور مرغے دستیاب ہیں۔
ایک لمحہ کے لیے ان آدھے کپڑے پہننے والوں پر غور کرو ، نہ کبھی سالم بکرا دربار پہ چڑھایا اور نہ چڑھاتے دیکھا مگر ایک ضرور دیکھا کہ سچ پورا بولتے نظر آئے ۔ کبھی ان کے گھروں پر اُلٹی ہانڈی نہیں دیکھی پر بے ضمیر والے کو اُلٹا لٹکاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ادھر پورے کپڑے پہننے والے پورے کپڑے پہن کر بھی صرف یہی بتا سکتے ہیں کہ آیا نقاب کے پس پشت کون سی کریم اور فشل کی ہے پر وہ لوگ ان کی اس بد نیتی تک جلن لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کبھی اپنی گاڑیوں کے نیچے جوتے نہیں لٹکائے کیونکہ وہ داخلی و خارجی اس بات کا اعلان اپنی زندگی اور کردار سے دکھاتے ہیں پر پورے کپڑے پہن کے بھی یہ ذاتی زندگی سے لے کر عالمی سطح تک جوتے ہی کھاتے نظر آتے ہیں۔ صرف سادہ مثال یہی سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جوتا آگے رکھیں تو نماز نہیں پیچھے رکھیں تو جوتا نہیں۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جوتا بچاتے بچاتے پانی والے گلاس کو زنجیر سے قید کر بیھٹے۔ جس نل سے پانی نکالنا تھا بچارہ وہ قید میں ڈال دیا گیا۔ یہ ساری باتیں ثابت کرتے کرتے آدھے کپڑے اور پورا سچ عیاں ہو گیا۔
*******