گریفن جونز شررؔ (1924ء- 1999ء) :پروفیسرعامرزرین

علامہ گریفن جونز شررؔ کا شمار صفِ اوّل کے مسیحی شعراء میں ہوتا ہے۔ علامہ 1924ء میں، منڈیالہ ٹیجا، گوجرنوالہ (مغربی پنجاب) میں ریورنڈ برکت مسیح کے خاندان میں پیدا ہوئے۔شررؔ بنیادی طور پرمذہبی شاعر تھے۔ اُن کی سچی شخصیت کا عکس اُن کے اشعار میں اس طرح صاف نظر آتا ہے جیسے برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ کسی ساکن شفاف جھیل میں نظر آتے ہیں۔

علامہ شررؔ کی شاعری اس حقیقت کی عکاس ہے کہ اُن کے ذہن اور دل پر صلیب کی قُدرت اور محبت کس حد تک محیط ہے۔ وہ اپنے شگفتہ اسلُوبِ بیان اور عام فہم طریقے سے صلیب کے پیغام کو خاص و عام کے لئے آسان بنادیتے ہیں۔اُن کے نزدیک بائبل مقدس اور صلیب اُن کی شاعری کا اوّلین محور ہے۔ جو اُن کے نزدیک محبت اور اُمید کی علامات ہیں۔وہ خُداوند یسوع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی عجیب اور عظیم حقیقت سے اس حد تک متاثر ہیں کہ اپنی شاعری کے ہر مجموعہء کلام کا آغاز نقطۂ صلیب سے کرتے ہیں۔فلسفہ ء رنجِ الٰہی شررؔ کے کلام کی جان ہے۔ اُن کے نزدیک صلیب کی حقیقت اور ماہیت کے ان گنت تعمیری پہلو ہیں۔صلیب کو وہ اسی فلسفہ کی تفسیر اور تعبیر کے بطور علامت استعمال کرتے ہیں۔
شررؔ کے نظریات اور افکار کا ماخذ بائبل مقدس ہے۔ کیونکہ اِن کی پرورش ایک مسیحی گھرانے میں مسیحی والدین کے زیر ِ اثر ہوئی۔ لہذا یہ ضروری تھا کہ اِن کا فطری میلان مذہب کی طرف ہوتا۔ زندگی میں قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے اُن کے مذہبی رُحجانات میں اور بھی اضافہ ہوتا گیا۔اور عشقِ مسیحا اور فلسفہء صلیب کی طرف رُحجان بھی روز بروز بڑھتا گیا۔غرض کہ بچپن اور جوانی میں جو تعلیم اپنے گھریلو ماحول، مسیحی درسگاہوں اور اپنے بزرگوں سے حا صل کی تھی، اس بیش قیمت علمی اور روحانی سرمایہ کو انہوں نے ضائع نہیں ہونے دیا بلکہ اِسے اپنی خُداداد ذہانت اور فہم و فراست سے اور جَلا بخشی۔

شررؔ کو غزلوں سے زیادہ نظموں کا شاعر کہا جاتا ہے۔اُن کے نزدیک مسیحی افراد ا ور معاشرہ اُس پھول کی طرح ہیں جو اپنی نکہت اور اپنی ہی آواز بھول چُکے ہوں۔اُن کی بہت سی نظموں نے سوئی ہوئی مسیحی قوم کو بیدار کیا اور پھر اُن میں جوش، ولولہ اور جذبہء قومیت اس طور بھر دیا کہ وہ اپنے اصلاف کی طرح نہ صرف اپنے مسیحا کی خاطر بلکہ اپنے مسیحی سماج کی خا طر تلواروں پر اپنا سینہ ٹیک دینے اور مرمٹنے پر آمادہو گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شررؔ نے اپنی مسیحی مذہبی شاعری کو ایک نیا موڑ اورنئی سمت دی ہے۔وہ مذہبی شاعر کی حیثیت سے جدید شاعری اور تقاضوں سے بے حد متاثر تھے۔اُنہوں نے مذہبی شاعری میں نئے تجربات کئے اور جدید مسیحی شعراء کو نئی منزلوں کی سمت دیکھائی۔ شررؔ کی تخلیق کا ذریعہ اُردو کی تخیلاتی شاعری ہے جسے انہوں نے مہارت کے ساتھ بائبل مقدس کی عظیم سچائیوں اور حقائق کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اپنا پیغام اپنے قارئین تک پہنچایا۔ وہ اپنی شاعری میں بنیادی اور روائتی شاعری کے اَسلُوب اور نجات کے پیغام کو ہم آہنگ اور متوازن شکل میں پیش کرتے ہیں۔اُن کی شاعری کا یہ امتزاج انہیں باقی مسیحی شعراء سے مختلف اور جُدا گانہ بناتا ہے۔

وقت اور تجربات کے ساتھ ساتھ شررؔ کی قلم میں مضبوطی اور معیار کی چاشنی آئی۔ وہ اپنے قلم سے شاہِ ارض کے نیم گرم اور خوابیدہ پیروکاروں پر کُھل کر تنقید کرتے ہیں۔اور اپنے کلام کی بدولت انہیں ایک لمحہء فکریہ سے روشناس کرتے ہیں۔ پیغام ِ صلیب کی اوربھی موئثر تشہیر و ترسیل کے لئے برطانیہ میں قیا م کے دوران آپ نے 1973 ء میں پاکستان کرسچن ویلفیرآگنائزیشن قائم کی۔علامہ گریفن جونز شررؔ اپنی شاعری میں تخلص”شررؔ“ استعمال کرتے تھے۔ جس کے معنی چنگاری کے ہیں۔آپ کی ادبی اور مذہبی خدمات کے عوض آپ کو ادبی حلقوں میں خُوب پذیرائی ملی اور آپ کو مختلف القاب اور اعزازات سے نوازا گیا۔ چند ایک القاب کا ذکر یہاں مذکور ہو، ”علامہ“ یعنی فلسفی، ”سراجِ سُخن“ یعنی الفاظ کا سُورج یا چراغ، ”شاعرِ ملت“ یعنی قوم کا نمائندہ شاعر۔

اُردو اکیڈمی، ہندوستان نے تصانیف کے ایک مقابلے میں آپ کے پہلے شعری مجموعے،”نقوشِ صلیب“ کو تیسرے انعام سے نوازا۔علامہ کی شعری اور نثری تصانیف میں مندرجہ ذیل شاہکار کُتب شامل ہیں،”نقوشِ صلیب، صلیبیں زندہ ہیں، ندائے صلیب، صلیبوں کے سائے، کیلیں، کانٹے اور صلیب، عرفانِ صلیب، رُودادِ صلیب، کاروانِ صلیب، مسیحی مشاہیر(جلد اوّل و دوئم)۔“ایشائی مسیحی طبقے کا یہ عظیم شاعر اور عالم 28 دسمبر 1999ء کو خُداوند خُدا میں سو گیا اور لُوٹن، متحدہ برطانیہ میں الہٰی اُمید میں محوِ استراحت ہے۔

شررؔ اپنی پُر جوش اور موئثر پیغامِ صلیب سے معطر اپنی شعری تخلیقات کی بدولت واقعی سراجِ سُخن کی حیثیت سے آج بھی ہم میں موجود ہیں۔اُن کے شعری نمونے مسیحی ادب کے نو آموز شعراء کے لئے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم بحیثیتِ قوم اُن کی تمام م ذہبی اور ادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، جن کی وجہ سے مسیحی عوام کو اُن کی حقیقی اور مستقل منزل کی طرف پیش قدمی میں راہنمائی میسر آئی۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading