ریاست میں جنگل کے قانون کا پس منظر : گمیلی ایل ڈوگرہ

قارئین برصغیر پاک و ہند (یعنی پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش) میں حساس نوعیت کے سنگین جرائم کے نتیجے میں سنگین قسم کے قوانین کے تحت اگر سزا رائج ہے تو عدالتیں ایسی نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ بھی کرتی ہیں جبکہ اچانک کسی شخص پر مذہب کی توہین کا الزام لگا کر جنگل کا قانون نافذ کرنے کا ایک ہتھیار بھی یہاں موجود ہے جو ایک ریاست میں کوئی بھی مذہبی جنونی اور سازشی شخص اچانک کسی بھی مذہبی اقلیت کے بے گناہ باشندے پر پوری طاقت سے لاگو کرتا ہے اور یہ کئی برسوں سے نظر آ رہا ہے ان حالات میں کوئی بھی جنونی شخص عدالتی نظام اور پارلیمینٹ کو بھی بلوائیوں کو بلوا کر ایمر جنسی کے حالات میں معطل کر دیتا ہے اور کسی بھی ملزم پر تشدد اور قتل و غارت یا چرچ اور مسیحی بستیاں جلانے کی سزا بھی خود ہی مقرر کرتا ہے باقی کام بلوائی بلا خوف جنگل کے قانون کا سہارا لیتے ہوئے خود کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں ریاست خاموش تماشائی بن کر اسے دیکھتی ہے جیسے مقبوضہ کشمیر پر جنگل کا قانون لاگو ہے اور مستقل طور پر چلا آ رہا ہے وجہ یہ ہے کہ مسلمان اقلیت آزادی مانگتے ہیں لیکن ہیں بھی کمزور اقلیت۔
پاکستان میں بلوہ میں چند لمحوں میں سارے شہر کے ہمراہ فیصلے کے لیے ایک ہی شخص جنگل کے قانون پر عمل کراتا ہےاس میں بے گناہوں پر جھوٹا الزام لگاکر کسی شخص کا قتل کرنا اور کسی مسیحی بستی کا گھیراؤ جلاو شامل ہے کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ ریاست میں اسکی مثالیں سانحہ شانتی نگر سانحہ گوجرہ سانحہ جوزف کالونی سانحہ جڑانوالہ اور اسی طرح کا ایک طویل سلسلہ ہمارے پاس موجود ہے جس طرح تازہ ترین صورت حال میں سانحہ سر گودھا بھی پیچھے نہیں رہا ہے۔
بنگلہ دیش نے ہر روز کے جنگل کے قانون سے بچنے کے لیے آئینی اور قانونی دستاویزات کو اپنے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات کے تحت سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے سیکولر سوچ کو پروان چڑھا لیا ہے وہاں اب جنگل کے قانون کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور وہ بھارت اور پاکستان سے زیادہ جمہوری سوچ کو لے کر آگے بڑھنے کے حامی لوگ ہیں۔ 
جنگل کا یہ قانون برطانیہ کے نہ لکھے ہوئے آئین جیسا لگتا ہے انڈیا میں جنگل کے اس قانون کو لاگو کرنے کی مثال مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے قتل عام پر معمول میں بٹوارے کے ساتھ ہی شروع ہوا اور اب بھی جاری ہے اور یہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے لیے جب آزاد ریاستوں کا اعلان ہوا تومذہبی جماعتیں پاکستان کے خلاف تھیں یعنی جن مسیحیوں نے قائد اعظم اور دو قومی نظریے کا پاس رکھا اور قربانیاں دیں وہ مسیحی تھے مسلمان اقلیت میں دم نہیں تھا کیونکہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے بھارت میں قیام پاکستان کے وقت رہنا پسند کیا۔ یہ بات قائد اعظم بھانپ چکے تھے آج وہ مذہبی جماعتیں ریاست کے مذہبی اقلیتوں یعنی مسیحیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو تنگ کرتی ہیں؛
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
ریاست اس بات کو جانتی ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے پاکستان اور بھارت کی اقلیتیں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی تصویر ہیں جنہیں جنگل کے مذکورہ قانون کی پاسداری کا سامنا ہے۔
گذشتہ دنوں روز نامہ جنگ میں پاکستان کے نامور دانشور اور کہنہ مشق کالم نگار اینکر سہیل وڑائچ اپنے کالم بعنوان ”مشت خاک اور یہ سارے“ کا آغاز کرتے ہوئے لکھتے ہیں
کہ ” مشت خاک کی کیا حیثیت ہے؟کہاں کی دانائی اور کہاں کا تاریخی شعور؟ اہل سیاست اور اوپر والے ہی سب سے زیادہ عقلمند ٹھہرتے ہیں وہ وقت کے بادشاہ ہوتے ہوئے غلط کریں یا صحیح وہ اس پر اڑے رہتے ہیں چاہے اس میں ملک تباہ ہو جائے عوام مفلوک الحال ہو جائیں یا ریاست زوال کا شکار ہو جائے آج وہی صورت حال در پیش ہے“
قارئین یہاں اہل سیاست اور ان پر ریاست کے حوالے سے بڑے لوگوں کی سرد مہری کے رویے پر وہ لمبی بات کرتے نظر آتے ہیں ۔
وہ آگے جا کر پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سے ریاستی رسہ کشیوں اور چیرہ دستیوں کا ذکر کرتے ہیں اور اسلام کی شاہانہ سلطنتوں کی اپنے ہی ہاتھوں بربادی کا تذکرہ بھی کرتے نظر آتے ہیں-
قارئین بٹوارہ کے بعد مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا گناہ اپنی آزادی مانگنا ہے اور ہندو اقلیت گاندھی کی فراہم کردہ آزادی اُنہیں دینے کو تیار نہیں اور وہ ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستانی مسیحی و دیگر مذہبی اقلیتیں قائد اعظم کی دی ہوئی مندروں مسجدوں میں جانے کی آزادی جس سے ریاست کا کوئی لین دین نہیں اسے روکنے کے لیے چند شرپسند عناصر بضد ہیں اور آئے دن کے ایسے سانحات پر ریاست خاموش ہے اور یہ بھی ایٹمی طاقت ہے جو ایسے گھناونے منصوبے کو روکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ قائد اعظم اور آئین ہر پاکستانی کو برابر کے شہری ہونے کے حقوق فراہم کرتا ہے لیکن ریاست اقلیتوں پر جبر کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ حساس نوعیت کے قوانین کو رائج تو کر لیا تو اچانک جنگل کے قانون کے ردعمل پر ریاست کی جانب سے اقلیتوں کے تحفظ کا کیا انتظام ہے؟ ریاست خاموش، اسمبلیاں خاموش کس لیڈر نے سانحہ سرگودھا کا دورہ کیا ہے اور مذہبی اقلیتوں کی خبر گیری کی ہے۔
سینٹر خلیل طاہر سندھو نے سانحہ سرگودھا کا دورہ کیا جبکہ رمیش سنگھ اروڑہ کا مذمتی بیان اس سانحے کے حوالے سے ناکافی ہے۔ صدر پاکستان وزیر اعظم پاکستان چاروں صوبائی وزراء اعلی’،صوبائی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سپیکرز حالات کا جائزہ لے کر مذہبی اقلیتوں کو جنگل کے قانون سے بچانے کا کوئی بندوبست مستقل بنیادوں پر کرے اور ملک پاکستان کوفلسطین اور کشمیر بنتا نہ دیکھے۔
انڈیا اور پاکستان ایٹمی طاقتیں ہیں لیکن ان کے اپنے ملکوں میں اقلیتیں فلسطین کا منظر پیش کر رہی ہیں ان کے ایٹم بم کا کوئی فائدہ نہیں اگر سوویت یونین کی طرح ان کے ہاتھ سے اگر خدا نخواستہ ان کی نظریاتی سرحدیں اخلاقی قدروں کو پامال کرنے سے ہی نکل گئیں تو اس سے بڑھ کر کوئی جنگ اس علاقے میں اور ہے ہی نہیں کہ اقلیتوں کو ہراساں رکھا جائے جس میں تمام اقلیتی کمیونیٹیز سے مسیحی، مسلم،سکھ، ہندو اور دیگر مذاہب کے باشندے ہیں۔ مذاہب اخلاقی قدروں کا منبع ہوتے ہیں اور ڈانگ،سوٹا، تلوار اور جنگل کے قانون سے نہیں چلتے اس لیے اقلیتوں پر ظلم کو بند کیا جائے اور اپنے اپنے مذہب کو سمجھا بھی جائے اگر اسے حقیقی معنوں میں سمجھا جاتا تو یہ ملک پُرامن ہوتا۔قول و فعل کے تضاد سے کبھی مذہب نہیں چلتے- مذہب عملی زندگی سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے، جبر گناہ ہے اور اسلام میں جبر کی گنجائش نہیں ہے۔ جنگل کا قانون اچانک نافذ کرنے کا مطلب کیا ہے ریاست کے نظام کو مفلوج کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

بقول انڈین شاعر ڈاکٹر بشیر بدر؛
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اس کے آشیانے میں

بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ؛
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ’ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

مرزا اسعد اللہ خاں غالب کہتے ہیں؛
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
پاکستان زندہ باد،پاکستان پائندہ باد

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading