اُس دن میں اپنے کالج میں تھا جب خبروں میں معلوم ہوا کہ امریکہ میں ٹوین ٹاور پر حملہ ہوگیا اور دہشت گردوں نے امریکہ کے ٹوین ٹاورز اور پینٹاگون پر جہاز ہائی جیک کر کے ٹکرا دیئے۔ اُس وقت کا میڈیا اس سارے حادثہ کو لائیو کوریج دے رہا تھا ۔ جیسے جیسے میڈیا اس واقعہ کی ہولناکی پر تبصرے کر رہا تھا اور فوٹیج جاری ہو رہی تھیں ہمارے کالج میں خوشی کی ایک لہر دوڑ رہی تھی۔
مجھے یاد ہے میرے اپنے کولیگزخوشی سے جھوم رہے تھے امریکہ کی تباہی پر ایک دوسرے کو مبارکباد رہے تھے ۔ ہم میں سے ایک شخص تو بھاگ کر مٹھائی لے آیا۔ اُن سب میں شاید ایک میں ہی تھا جسے افسوس اور حیرت بھی ہو رہی تھی۔ کہ کیا واقعی کوئی انسان کسی کے ہلاک ہونے پر اتنا خوش ہو سکتا ہے اور ہلاکت بھی اُن کی جن کو نہ ہم جانتے ہوں اور نہ کبھی ملے ہوں۔ ہاں انسانوں کے مرنے کی خوشی۔ ہوسکتا ہے امریکہ سے ہمیں کوئی اختلاف ہو یاامریکی گورنمنٹ نے کچھ ایسا کیا ہو جو ہمارے ملک کے خلاف ہو۔ لیکن یہ بیچارے انسان ،ان میں کوئی کسی کی ماں ہوگی ، کوئی کسی کا باپ ہوگا۔ کوئی کسی کا بھائی ہوگا۔ اگر واقعی امریکہ ہمارے خلاف کچھ ایسا کرتا ہے تو کیا وہ امریکی عوام ہے یا امریکہ ؟ ابھی فیصلہ باقی ہے ۔ وہ کیا صوفی شاعر نے کہا ہے؛
”دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے سجنا وی مرجانا“
سوال پیدا ہوتا ہے اگر امریکی عوام نے کوئی ظلم و ستم کیا ہے تو پھر یو ایس ایڈ کیا ہے ؟اور اس آگے تو بحث لمبی ہو سکتی ہے ویسے ہم نے مرنے اور مارنے کے پیسے وصول کیے ہوئے ہیں جب گھر اور ضمیر کرایہ پر دے دیاجائے تو شکوے نہیں ہوتے۔
چند سال پہلے کرونا وائرس کا دَور چلا اور ہم نے ایک بار پھر اپنی بدعاؤں کے تیر چلائے اور اٹلی ،فرانس وغیرہ میں ہونے والی ہلاکتوں پر خوشی کا اظہار کیا اور گلی محلے کے ملاں اور سوشل میڈیا کے کی بورڈ وارئیر نے یورپ اور امریکہ کی تباہی کے مژدے سنائے اور اللہ تعالیٰ سے کرونا جیسی وباؤں کو کافروں کے طرف بھیج دینے کی مناجاتیں بھی کیں۔
آج تیئس سال بعد ایک بار پھر امریکہ کی ریاست لاس اینجلس میں آگ بھڑک اُٹھی جس نے ریاست کے تقریباً پانچ فیصد حصہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پاکستان میں ایک بار پھر خوشی کے شادیانے بجائے گئے اور اس آگ کو اللہ کے عذاب سے تشبیہ دینا شروع کردیا۔ ایک دوسرے کو مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ کسی کی تباہی پر ہماری خوشی دیدنی ہے اور آگ کو فلسطین اور غزہ میں ہونے والے ظلم سے جوڑا جارہا ہے۔ بازگشت ہے! اللہ تعالیٰ نے فلسطین کا بدلہ لے لیے لیا۔
بات سمجھ سے بالا تر کہ ہم کس مٹی سے بنے ہیں؟ہم دو دو کشتیا ں میں سوار لوگ کیاچاہتے ہیں ایک طرف ہم امریکہ کا ویزہ بھی لینا چاہتے ہیں ، ڈالر بھی کمانا چاہتے ہیں۔ امداد بھی لینا چاہتے ہیں اور پھر اُنہی کی تباہی خواب بھی دیکھتے ہیں۔ ہم کنفیوز قوم ہیں ۔ ہم وہ گاجریں بھی کھا جاتے ہیں جنہیں روز گندگی کی وجہ سے رد کرتے ہیں۔ ہم بحثیت قوم فیصلہ کیوں نہیں کرپاتے کہ ہم امریکہ کے خلاف ہیں یا امریکہ کی حمایت میں ۔
ہم کیوں اس قدر منفی سوچ رکھتے ہیں دنیا سے اس قدر نفرت اور پھر زندگی بھی وہاں ہی گزارنا ہمارا خواب ہے۔ آپ کبھی امریکہ کی ایمبیسی جائیں۔ لگتا ہے ساراپاکستان امریکہ جانا چاہتا ہے۔ امریکہ جانے کا جنون بھی سر چڑھ کر بولتا ہے کہ جہازوں کے پرو ں پر بیٹھ کر جان بھی گنوا دیتے ہیں، سمندروں میں ڈنکیاں لگاتے ہیں مطلب جہاں جانا چاہتے اُسی جگہ کی تباہی کی دن رات بد دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ خدا بھی سوچتا ہے ہوگا کہ اِنہیں وہاں بھیجوں یا جہاں یہ جانا چاہتے اُسے ان کی بد دُعاؤں کے مطابق تباہ کروں۔
ہم کیا چاہتے ہیں کچھ معلوم نہیں ۔ دشمن کو تباہ کریں یا دشمن کے گھر جا کر سکونت کریں ؟ کیا کریں؟ دشمن کی اکانومی تباہ ہو یا دشمن کے ڈالر ملیں۔ جس بنک سے پیسے چاہیے اُسی بنک کو بددُعائیں دیں! کیا کریں۔ خدایا تو ہی بتا کیا کریں۔ دل کافر کو تباہ کرنے کو کرتا ہے دماغ اُس سے روٹی مانگتا ہے۔ اب کیا جاننا ضرور ی ہے کہ لعنت اُن پر ہے یا ہم پر کیونکہ اس بار کافر دینے والا ہاتھ ہے اور ہم لینے والے ہاتھ۔۔۔۔مجھےجاویدؔ ڈینی ایل کی غزل کےاشعار یاد رہےہیں؛
وہ کہہ رہا ہے اُسی کو کافر
کہ جس کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے
اُسی کے جاویدؔ شر سے بچنا
جو آستینوں میں پل رہا ہے
واقعی اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی جانیں تو سچ یہ ہے کہ یہ فیصلہ خدا پر چھوڑ دیا جائے اور اپنے اعمال کی طرف توجہ کی جائے وہ کام کیا جائے جو طائف میں ہوا تھا۔ دشمن کو گلے لگایا جائے۔ یہ بھی سچ کہ یہ آسان نہیں پھر بھی سوچا تو جاسکتا ہے کیونکہ دنیا ایک طرف ہے اور ہم ایک طرف۔
*******