کرسمس ۔ اک معجزۂ محبت : پروفیسر عامر زریں

مسیحیوں کے لیے کرسمس بہت اہم موقع ہے،کیونکہ یہ منجیء دو عالم یسوع مسیح کی پیدائش کا جشن ہے۔ ذاتِ خداوندی کا انسانی قالب میں تجسم کی علامت ہے تاکہ انسانیت کی نجات، محبت اور امید و وصال کے آسمانی فلسفہ کو سمجھا جاسکے۔ یہ موقع نجات کے آغاز اور پیشن گوئی کو پورا کرنے کی علامت ہے۔ یہ الٰہی محبت اور نجات دہندہ کے طور پر یسوع المسیح کی ذات پر غور کرنے کا وقت ہے۔ اور سخاوت، ہمدردی اور خدمت جیسی مسیحی اقدارکے تجسم کا تہوار ہے۔یہ تہوار ”خوشخبری” کا جشن مناتے ہوئے کہ خدا نسلِ انسانی کے ساتھ ہے، اُن تمام الٰہی وعدوں اور نوشتوں کو از سرِ نو یاد کرنے کا وقت ہے۔پیامبر فرشتہ اور اس کے ساتھ آسمانی لشکر کی گرو ہ نے بیاباں کے چرواہوں کو منجیء کائنات کی پیدایش کی خوش خبر سنائی کہ، ”عالمِ بالا پر خُدا کی تمجید ہو اور زمیں پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح۔“

عزیزو! چلیں صلح کے شہزادہ یسوع المسیح کے اس دُنیا میں آنے کی 2025 ویں یاد گار مناتے ہوئے، دیوارِ برلن کی تعمیر اور انہدام میں پوشیدہ الٰہی صلح، محبت اور وصال کے پیغام کا جائزہ لیتے ہیں۔
”دیوار برلن اور کرسمس کا معجزہ” سے مراد اس دیوار کے وجود (1961-1989) کے دوران کرسمس کے پُرجوش، دل دہلا دینے والے مناظر ہیں، جہاں مشرقی اور مغربی برلن کے باشندے اس رکاوٹ کو پار کر رہے تھے، جدائی کا کرب سہتے خاندانوں کے لیے اُمید اور آرزو کا اظہار کرتے ہوئے، تقسیم کے خلاف اتحاد کی علامت، خاص طور پر 1963 کے کرسمس کے ارد گرد، جب کچھ حقیقی کرسمس منانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اور پھر 1989 میں، مشترکہ تہوار کے جذبے کے تحت شہر کو متحد کر دیا گیا۔

جدائی کی اس دیوار کے پس منظر کا جائزہ لیں تو یہ دیوارِ برلن ایک محافظ کنکریٹ کی رکاوٹ تھی جس نے مشرقی اور مغربی برلن کو 1961ء سے 1989ء تک الگ کیے رکھا، جسے مشرقی جرمنی نے شہریوں کو شہر کے مغربی حصے کی طرف فرار سے روکنے کے لیے بنایا تھا۔ یہ دیوار رکاوٹوں کا ایک پیچیدہ نظام تھا، جس میں کنکریٹ کی دیواریں، واچ ٹاور، اور ”موت کی پٹی” شامل تھی جہاں سرحدی محافظ فرار ہونے والوں کو گولی مارنے کا حکم تھا۔ یہ دیوار سرد جنگ کی تقسیم اور انسانی حقوق کو دبانے کی ایک مضبوط علامت بن گئی تھی۔ اور 9 نومبر 1989ء کو اس دیوار کے زوال نے سرد جنگ کے خاتمے کی نشان دہی کی اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی راہ ہموار کی۔

تاریخی لحاظ سے جرمنی کرسمس کے لیے مشہور ہے کیونکہ آج کی بہت سی مشہور کرسمس روایات دراصل یہاں سے ہی شروع ہوئی ہیں، جیسے کرسمس ٹری، آمد کے کیلنڈرز اور کرسمس کے بازار وغیرہ۔دیوار ِبرلن نے خاندانوں کو تقسیم کرکے کرسمس پر بہت زیادہ اثر ڈالا، لیکن یہ اُمید اور دوبارہ اتحاد کی علامت بھی بن گئی جب عارضی افتتاح نے مشرقی اور مغربی برلن والوں کو تعطیلات کے دوران ملنے کی اجازت دی، اور خاص طور پر 1963 میں، شدید تقسیم کے درمیان جذباتی ملاپ کو جنم دیا، یہاں تک کہ المناک واقعات، جیسے ایک مہلک شوٹنگ، ”ؤالل66“ کے تحت ہلاک ہونے والے کے واقعات اور سیاسی تناؤ کرسمس تہوار کی خوشیوں کے متضادتھے۔

سوشل میڈیا پر ایک تحریر میں دیوارِ برلن کے ٹوٹنے اور جرمنی کے دونوں حصوں کے ایک ہونے کی ایک خوب صورت منظر کشی کی ہے، ملاحظہ ہو ، ”یہ 61 19 ء کا سال تھا۔ ایک رات خاموشی سے شہر کے بیچوں بیچ ایک دیوار کھڑی کر دی گئی جرمنی کا شہر برلن جو کبھی ایک تھا دو حصوں میں بٹ گیا مشرقی اور مغربی برلن۔ دونوں طرف خاندان ٹوٹ گئے اور عزیز دوست و احباب ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔وہ دیوار صرف کنکریٹ ہی کی نہیں تھی، وہ آنکھوں میں آنسو، دلوں میں درد اور نسلوں کی بے بسی کی علامت تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا شاید! جدائی کی یہ حائل دیوار کبھی نہیں گرے گی۔

سال 1989ء میں جب کرسمس قریب آیا اور کچھ عجیب ہونا شروع ہوا،عبادت گاہوں (ثھئرچھعس) میں لوگ دُعائیں کرنے لگے، سرد راتوں میں موم بتیاں جلنے لگی، ہزاروں لوگ دیوار کے آس پاس جمع ہونے لگے، ہاتھوں میں روشنی، دلوں میں اُمید اور زبان پر صرف ایک درخواست کہ اے ربّ ِ ذولجلال ہمیں پھر سے ایک کر دے۔ پھر 9 نومبر 1989 ء کی رات ایک غیر متوقع معجزہ وقوع پذیر ہوا۔ لوگ دروازوں تک پہنچے،روتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ گئے،بیٹے اپنی ماؤں کے گلے لگے، بھائی اپنے بہنوں سے برسوں بعد ملے۔سال 1989ء کی ایک یخ بستہ رات…… 28 سال قبل کھڑی کی گئی نفرت اور جدائی کی یہ دیوار ایک معجزہ کی طرح گر گئی۔…… نہ گولی سے…… نہ فوج سے …… بلکہ حوصلے، اُمید اور آزادی کی تڑپ سے یہ دیوار زمیں بوس ہوگئی۔ …… جیسے 1914ء کے کرسمس معجزے کی طرح جب مخالف فوجوں نے اپنے آتشی ہتھیار رکھ کر، کرسمس کا مشہور گیت، ”سائلنٹ نائٹ (صیلعنت نیگھت)“ گایا تھا۔ وہ دیوار جو ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ ہزاروں ہاتھوں نے ہتھوڑے مار مار کر خود ہی اسے توڑ ڈالا۔ کہتے ہیں، ”اس رات پورے یورپ میں گھنٹیاں بج رہی تھی۔“ بہت سے مورخین کا ماننا ہے کہ یہ آزادی سیاسی جدو جہد اور تگ و دو کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ یہ صلح کے شہزادے ہمارے منجی خُداوند یسوع مسیح کی طرف سے جرمن قوم کے لئے کرسمس تحفہ تھا۔ ایک قوم جو تقسیم ہوگئی تھی،اُس رات دوبارہ ایک ہوگی۔

دوستو! کرسمس ہمیشہ وہ تہواررہا ہے جب حائل دیواریں گرتی ہیں …… سالوں کے بچھڑے ملتے ہیں اور دل خوشی سے کھل اُٹھتے ہیں۔ آئیے!آج یسوع مسیح کے نُور کو دلوں میں بسائیں جو جدائی، تیرگی کے بندھنوں، روحانی و دُنیاوی رکاوٹوں اور دیواروں کو مسمار کرکے صلح، امن اور ملاپ کی نوید لاتا ہے۔ ”عالمِ بالا پر خُدا کی تمجید ہو اور زمیں پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح۔“ٍ
کرسمس مبارک ہو۔ خُداوند خُدائے عظیم کے پیار، محبت اور وفاداری سے ہماری زندگیاں پُر ایمان اور معطر رہیں۔آمین

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading