عجب تماشا سا چل رہا ہے : جاویدؔ ڈینی ایل

یہ غزل   تَحْتُ اللَّفْظ  سننے کے لئےسپیکر کے نشان پر کلک کیجئے

شاعری: جاویدؔ ڈینی ایل    —-***—-تَحْتُ اللَّفْظ: ایوب جوزفؔ

عجب تماشا سا چل رہا ہے
غریب ہاتھوں کو مل رہا ہے
پنپ رہی ہے منافقت بھی
عروج پستی میں ڈھل رہا ہے
اِسی لیے تو وہ مر رہا ہے
حسد کی بھٹی میں جل رہا ہے
یہ کون تاریخ کو بدل کے
ہمارا چہرہ مسل رہا ہے
کسی کو بے جا صلیب دینا
یہ کام صدیوں سے چل رہا ہے
وہ کہہ رہا ہے اُسی کو کافر
کہ جس کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے
لُٹا کے تن من گنوا کے حرمت
وہ رفتہ رفتہ سنبھل رہا ہے
رہو گے خاموش تو مرو گے
یہ فیصلہ تو اٹل رہا ہے
اُسی کے جاویدؔ شر سے بچنا
جو آستینوں میں پل رہا ہے
*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading