میں ادیب ہوں، شاعر ہوں۔ لفظوں سے دنیا بناتا ہوں، خیالوں کے رنگ بھرتا ہوں۔ لیکن جب سیلاب آیا، تو لفظوں کی بساط الٹ گئی۔ پانی نے گلیوں کو نگل لیا، گھروں کو دھو ڈالا، اور خوابوں کو بہا لے گیا۔ میں اپنی کتابوں کے درمیان بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ادب کیا کر سکتا ہے؟ کیا میری شاعری کسی کی جان بچا سکتی ہے؟ کیا میرا قلم کسی کے آنسو پوچھ سکتا ہے؟ پھر ایک لمحے نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔ ادب صرف کاغذ پر نہیں، دل میں بھی ہوتا ہے۔ وہ حوصلہ دیتا ہے، وہ عمل کی طرف دھکیلتا ہے۔میں نے فیصلہ کیا۔ میں سیلاب بچاؤ کے محکمے چلا گیا، رضاکارانہ طور پر۔ اپنے ساتھ ایک اردو کی لغت اٹھائی، کہ شاید کوئی محاورہ کام آ جائے۔ ذہن میں ایک جملہ گونج رہا تھا: ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ بس، یہی کافی تھا۔ میں نے ایک بوری میں تنکے بھرے اور کشتی پر سوار ہو گیا۔ سوچا، جہاں کوئی ڈوبتا دکھے گا، ایک تنکہ پھینک دوں گا۔ شاید وہ اسے تھام لے، شاید وہ بچ جائے۔
سیلاب کا منظر عجیب تھا۔ پانی کی لہریں چیخ رہی تھیں، اور لوگوں کی آوازیں ان میں گم ہو رہی تھیں۔ میں نے دیکھا، میرے جیسے اور بھی بہت سے لوگ تھے۔ کوئی اپنی کشتی چلا رہا تھا، کوئی رسی پھینک رہا تھا، کوئی کھانے کے پیکٹ بانٹ رہا تھا۔ ایک اخباری نمائندہ اپنا کیمرہ لیے تصاویر کھینچ رہا تھا، شاید دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ ایک مخیر شخص بلند آواز میں خیرات کا اعلان کر رہا تھا، جیسے اس کی آواز پانی کے شور کو چیر دے گی۔ اور پھر، ایک عجیب سی چیز نظر آئی۔ ایک شخص، جو ڈوبنے کی اداکاری کر رہا تھا۔ وہ چیخ رہا تھا، ہاتھ ہلا رہا تھا، لیکن اس کے پاؤں پانی کے نیچے زمین کو ٹٹول رہے تھے۔ جعلی ڈوبنے والا۔ میں حیران رہ گیا۔ کیا یہ سب تماشا تھا؟ یا یہ بھی سیلاب کا ایک رنگ تھا؟ میں اپنی کشتی پر کھڑا، ہاتھ میں تنکہ لیے سوچ رہا تھا۔ کیا کروں؟ کسے بچاؤں؟ کون سچا ہے، کون جھوٹا؟ پھر میں نے فیصلہ کیا۔ میں ادیب ہوں، میرا کام فیصلہ کرنا نہیں، مدد کرنا ہے۔ میں نے تنکہ پھینک دیا۔ ایک ڈوبنے والے نے اسے تھام لیا۔ اس کے چہرے پر امید جھلکی۔ شاید وہ جعلی تھا، شاید سچا۔ لیکن اس لمحے، وہ تنکہ اس کی زندگی بن گیا۔
سیلاب کے اس میلے میں، جہاں ہر کوئی اپنا کردار ادا کر رہا تھا، میں نے اپنا کردار چن لیا۔ میں ادیب ہوں۔ میرے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی کافی تھا۔ تنکہ چھوٹا تھا، لیکن امید بڑی تھی۔ اور شاید، یہی ادب کی طاقت ہے۔ لفظ ہو یا تنکہ، وہ کسی کی زندگی بدل سکتا ہے۔میں کشتی چلاتا رہا، تنکے پھینکتا رہا۔ سیلاب جاری تھا، لیکن میرا حوصلہ بھی۔ میں خوش تھا کہ میرا ادب آج کام آ گیا۔۔۔۔ کیا میرے ادیب دوست٫شاعر اور کالم نگار اس کام میں میرا ساتھ دیں گے؟
*******