زیرو ٹو ہیرو۔ظہران ممدانی (امریکا کا پہلا مسلمان مئیر) : امجد پرویز ساحل

یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو افریقہ میں پیداہوا اور اپنے والدین کے ساتھ امریکا آیاجس کی ماں ایک مشہور فلم میکر اور باپ پروفیسر ہے جس نے آبادی کے لحاظ سے امریکاکے سب سے بڑے شہر نیویارک کا مئیر بن کردُنیا کو ایک بہترین پیغام دے دیا۔ اگر ارادے مضبوط ہو ں تو بڑی سے بڑی مشکل کو بھی آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے ۔
قابلِ بیان بات یہ ہے کہ ظہران بذاتِ خود ایک مہاجر ہیں اور مسلمان بھی ہےں۔ وہ خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ بھی کہتے ہیں۔ ظہران ممدانی جس کو محض آٹھ یا دس سال پہلے تک کو ئی جانتا تک نہیں تھا حالاں کہ وہ کچھ سال پہلے نیویارک سٹیٹ کونسل کے ممبر بھی رہ چکے ہیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اِس الیکشن کی کیم پین کے شروع میں اس کا باقی اُمیدواروں میں مقبولیت کے لحاظ سے بیان کی گئی فہرست میں نوا ں نمبر تھا اور چند لوگوں کی سوااس کو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ لیکن اس آدمی نے کمال کردیا وہ ڈور ٹو ڈور جاتا اور لوگوں کو اپنی پہچان کرواتا۔ وہ خود پلے کارڈ اُٹھائے نیویارک کی سڑکوں کی خاک چھانتا۔ اُس کی یہ کوشش رنگ لائی اور آہستہ آہستہ لوگوں نے اِس کو جاننا شروع کیا۔ وہ روز صبح کو نکلتا کیا مزدور، کیا ہوم لیس ، ٹیکسی والے سب کو فرداً فرداً ملتا۔ اس نے شہر کے ان مسائل کو پکڑا جس پر لوگ زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ایک وقت یہ بھی آگیا جب ظہران کو شاید مسلمان ہونے یا پھر مہاجر ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی جماعت نے اس پر سے ہاتھ کھینچ لیا۔ شہرکے امیرترین لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔وقت کا حاکم جس کے خلاف ہو، اُس کوجیتنا ناممکن ہوتا ہے لیکن ظہران نے سب پیش گوئیوں کو غلط ثابت کیا اور نویں نمبر سے پہلے نمبر پر آکر ثابت کر دیا کہ محنت کے اور لگن کے آگے کوئی رکاوٹ نہیں ٹھہر سکتی۔ ظہران کی جیت نے ان ممالک کے نظام کے منہ پر زناٹے دار تھپر رسید کیا ہے جو مذہب اور ذات کی بنیاد پرلوگوں کو آئینی طور پر آگے نہیں آنے دیتے جس میں ہمارا پاکستان بھی شامل ہے جہاں کو معاشرہ اور نظام یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی غیرمسلم شہر کا حاکم بن جائے۔ بحرحال اس کے علاوہ ان نے ایک بات اور سکھادی کہ اقلیت اور اکثریت کچھ بھی نہیں ہوتا بات ساری آپ کے اندر کے جذبے کی ہوتی اگر اپنے ملک کا آئین آپ کو سپورٹ کرے تو قسمت آزمائی کوئی معیوب بات نہیں۔ اس کے علاوہ ایک فیکٹر اُس کا متوازن اور سیکولر ایجنڈا بھی تھا جس میں اس نے شہر کے ان مسائل کو اُٹھایا جو عام آدمی کی ضرورت تھے۔ ظہران کی کامیابی سے جہاں پاکستان میں خوشی کا اظہار کیا وہاں پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں میں بھی یہ جذبہ اُٹھا کہ وہ کیسے پاکستان میں برابری کی سیٹوں پر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ ایسا ہونا اگر چہ مشکل بات لیکن ناممکن نہیں اس کے لیے پاکستان میں دو قسم کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ایک آئینی اور دوسری مائنڈ سیٹ۔ اگر دونوں میں ممکنہ تبدیلی کر دی جائے تو پاکستان کے غیرمسلم شہری بھی مین سٹریم سیاست کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے ظہران جتنی سخت محنت کرنی پڑے گی کیونکہ پاکستان میں بسنے والے غیرمسلم شہریوں کی اکثریت نہ کہیں سے ہجرت کرکے آئے ہیں نہ مہاجر ہیں وہ صدیوں سے اس خطے کے باسی ہیں۔ بقول قِتیل شفائی؛
ایک یہی پہچان تھی اپنی اِس پہچان سے پہلے بھی
پاکستان کا شہری تھا مَیں پاکستان سے پہلے بھی
لہٰذا پاکستان کے وجود سے پہلے یہاں بسنے والے جنہوں نے قائداعظم کا ساتھ ہی اس کو اپنے لیے ایک محفوظ اور ذات پات رنگ نسل اور مذہبی تعصب سے بچنے کے لیے دیا تھا نہ کہ خود کو محکوم رہنے کے لیے۔ ہاں اگر ملک کی اکثریت ملک کے سرمایہ داروں ، وڈیروں ، سیاسی پیروں اور سیاست دانوں کے پالیسیوں کے وجہ سے معاشی اور سماجی مشکلات کا شکار ہیں تو پھر سب کے ساتھ ہی ہیں اس میں گھبرانے کی ضرورت ہی کیا۔
پس اگر پاکستان کے غیر مسلم سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو اُن کے پاس دو آپشن ہیں یا اقلیت بن کر مخصوص سیٹوں پر تشریف رکھیں اور درباری سیاست کریں یا جنرل سیٹوں پر آکرالیکشن لڑکر برابری کی سطح صوبائی اور قومی اسمبلی کا حصہ بنیں۔ اس کے لیے ہمیں اقلیت کے خول سے باہر آنا پڑے گا اور اُن مسائل پر بات کرنی ہوگی جو صرف اقلیتوں کا نہیں بلکہ اکثریت کا بھی مسئلہ ہو،پاکستان کو سینکڑوں مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق اقلیت یا اکثریت سے نہیں بلکہ سانجھا ہے یعنی ، روٹی ،کپڑا ، مکان ، تحفظ اور اَمن۔
آج اگر کچھ لوگ کینیڈا، انگلینڈ،بھارت اور امریکہ میں ہونے والے مسلمان یا سکھ لوگوں کے حوالہ سے سوچ رہے ہیں کہ وہ وہاں جنرل سیٹوں پر کیوں ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اُن مسائل پر بات کرتے جس سے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جا سکیں نہ کہ خود ہی تقسیم ہو کر اپنے ووٹ خراب کرلیں۔ لہٰذا اِن سب مشکلات کا مقابلہ کریں اور جنرل سیٹوں پر جنرل ایجنڈے کے ساتھ آئیں نہ کہ خود کو محروم اور لاچار ثابت کر یں۔ظہران جیسے نوجوان نے پوری دنیا کی اقلیت کو ایک سبق دیا ہے کہ اگرآپ دلیر ہےں، مستقل مزاج ہیں تو آپ جیت سکتے ہیں۔پس اپنا رویہ بدلیں، اپنی سوچ بدلیں ، خود کو جیتا ہوا اِنسان سمجھیں اور ڈٹ جائیں یہ ملک سب کا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا ، مسیحیوں کا ، ہندووں کا، سکھوں اور ہر اُس شخص کا جو اس ملک کا شہری ہے۔ جیتنے سے پہلے ہارنے کی کوشش مت کریں! پاکستان پائندہ باد!۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading