(تیسرا حصہ)
۔31 اگست 2025ءکو پورے آسٹریلیا میں احتجاج شروع ہو جا تا ہے جس میں ہزاروں لوگ سڑکوں میں نکل آتے ہیں ،ایڈلیڈ سے لے کر میلبورن تک لوگ ہی لوگ ہوتے ہیں ۔ ہر طرف نعرے گونج رہے ہوتے ہیں کہ غیرقانون تارکینِ وطن کو ملک سے نکالا جائے احتجاجیوں کی اکثریت بالخصوص بھارت اور بالعموم سارے غیرقانونی تارکین ِوطن کے خلاف نظر آتے ہیں۔ احتجاج میں ہر عمر اور جنس کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔اعلانات غیرقانونی تارکینِ وطن سے ہوتا ہوا قانونی طور پر رہائی پذیر شہریوں تک بھی پہنچ گیا ۔ اب اِس کی اصل وجہ کیا تھا تھی آگے چل کر بیان کرتے ہیں۔اِس احتجاج کے ٹھیک دوہفتے بعد انگلینڈ میں بھی اُسی طرح کی ریلیاں نکالی گئیں جس میں انگلش چینلزکے اور دیگر ذرائع سے یوکے میں داخل غیرقانونی تارکینِ وطن کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا کہا گیا۔ حالات لگ بھگ پرتشدد ہوتے ہوتے رہ گئے پھر بھی۵۲ سے زیادہ پولیس کے لوگ شدید زخمی ہوگئے۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ سے۳ لاکھ کے قریب لوگ مظاہروں میں شامل ہوئے ۔ سوشل میڈیا کے اعدادوشمار 5 سے 10 لاکھ بتائے جاتے ہیں۔ لوگوں نے پلے کارڈ اور بینر اُٹھائے ہوئے تھے جس پر تارکین ِوطن کو فوری ملک چھوڑنے کا کہا جارہا تھالوگوں میں شدید غم و غصہ دکھائی دے رہا تھا اس دفعہ یہاں بالخصوص مسلم کمیونٹی ٹارگٹ تھی جس میں پاکستانی ،بنگلادیشی ،افغانی اور شامی وغیرہ شامل تھے۔ لوگ شور مچار ہے تھے کہ ہمیں اپنا وہی پرانا اصل انگلینڈ واپس چاہیے ، کیونکہ جرائم خطر ناک حد تک بڑ چکے ہیں وغیرہ ۔
مطلب جب انگلینڈمیں احتجاج ہورہے تھے تو سویڈن کی سڑکوں پر بھی ایک منظم طرح کے لوگ سراپا احتجاج نظر آرہے تھے۔ جو ایک مخصوص انداز میں ان کے ممالک میں گھس بیٹھیوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ اُن کے مطالبات بھی کچھ ایسے تھے کہ غیرقانونی تارکین ِوطن ہمارے ملک کو فوری طور پر چھوڑ دیں۔ ان کی وجہ سے ہمارا کلچر خراب ہورہا ہے دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے واقعات اور جرم تشوناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو گھر سے باہر سکول و کالج بھیجتے خوف آتا ہے۔ سویڈن میں تو یہاں تک کے اس کا ایک شہر مالمو ایک طرح کا نو گو ایریا بن چکا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ا نہی دنوں میں آئرلینڈ میں بھی حالات خطرناک حد تک خراب ہو چکے ہیں وہاں تو آسٹریلیا ، انگلینڈ،سویڈ ن سے بھی بات بہت آگے بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کو اپنے دروازوں پر لوکل لکھنا پڑ گیا تاکہ مظاہرین کہیں اُن کے گھروں کو ہی نہ جلا دیں ۔ مطلب لوگ اس قدر غصے تھے کہ باہر سے آنے والے تارکیں ِوطن کے گھروں کو ہی جلا ڈالا۔
لسٹ بڑی طویل ہے جس میں جاپان جو کہ ایک پُر اَمن ملک خیال کیا جاتا ہے ، جرمنی ، یونان، سپین ، نیوزی لینڈ سمیت بہت سے ممالک میں غیرقانونی تارکین وطن کے حوالے شدید غصہ پایا جارہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے اپنے دل اوردروازے اِن خودساختہ مصیبت زدہ لوگ کے لیے کھول دیے اور اپنے ممالک میں پناہ دی تو پھر ایسا کیا ہوا کہ آج یہ لوگ ان سے قدرے تنگ ہیں ۔ کیا ان مذکورہ ممالک میں یہ سب کچھ اچانک ہوا ہے؟ اگر آپ ا ِسی موضوع پر میر ا ۷۱۰۲ءپہلا کالم پڑھیں تو وجہ معلوم ہو جائے گی اس ساری تلخی کی وجہ کیا ہے اور اگلے چند برسوں میں ایسا کیا ہونے والا ہے۔ اِن تارکین ِوطن کا زیادہ تر تعلق ، شام، مصر،پاکستان،بنگلادیش، بھارت، البانیہ،ایران، عراق، ترکیا، مراکش، پولینڈ،افغانستان اور نائجیریا وغیرہ سے ہے۔ جہاں بھوک ، ننگ ،جنگ اور غربت ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ اس مصائب کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟ پس ایسے صورتحال سے جو لوگ بچ بچا کر اِن مغربی ممالک میں گئے یا پناہ لی پھر اُنہوں نے اِن لوگوں کو پناہ دے کر نیکی کا ایک بڑا کام کیا۔ اُنہوں نے اِن سب پناہ گزین کو ایک بھیانک زندگی سے خوشحال زندگی بخشی۔ بلاشبہ اِن میں ایک بڑی تعداد اُن ممالک سے روزی روٹی کی چکروں میں آئے تاکہ ان کے پیچھے اِن کے خاندان اچھی زندگیاں گزار سکیں۔آپ کو انٹر نٹ پر بے شمار وڈیوز مل جائیں گے جہاں ا ِن پناہ گزینوں نے اپنے میزبان ممالک کے نظام کی ایسی کی تیسی پھر دیں۔ یہ سڑکوں پر نماز پڑھتے ہیں اُنہوں نے مساجد بنا کے دے دیں ، یہ حلال کھانا ڈھونڈتے تھے اُنہوں نے اِن کے لیے حلال کھانے کا نظام مرتب کر دیا ہے ، یہ اپنے کلچر کو محفوظ کرنا چاہتے تھے اُنہوں نے کلچر سنٹر بنا دئے ۔ یہاں تک کے شریعہ کورٹ تک کی سہولت دے دی تاکہ کسی کو بھی اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارتے کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔ آئین و قانون میں ایسی گنجائش رکھ دی کہ یہ کھل کر سیاسی طور پر ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔
اب پیچھے کچھ نہیں بچتا اور بدلے میں صرف و صرف ایک مطالبہ ، اگر شہریت لی ہے تو شہری بن جائے ، ملک کے وفاکریں۔ آپ قانونی طور ان ممالک کے شہری ہیں اور اخلاقی طورپربھی شہری بن جائے ۔ کوئی اپنے ملک کا نقصان نہیں کرتا آپ بھی نہ کریں کیونکہ آپ اِس ملک کے شہری ہیں۔ ہاں اگر آپ اپنے ابائی ملک کے شہری رہنا چاہتے تو رہیں ، اپنے ابائی ملک کو کوئی معاشی فائدہ دینا چاہتے ہیں تو دیں ،بس اس ملک کو نقصان مت پہنچائے ، آبائی ملک کے محب وطن ہے تو برطانیہ ، جرمنی، فرانس، امریکہ کے بھی وفادار بن جائے ۔ یہی ایک چھوٹا سا مطالبہ تھا۔ لیکن ہوا کیا؟ وہاں فراڈ ہوئے، احتجاج ہوئے، نقصان ہوئے، قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئی، اُن کی خواتین کو اپنے فائدوں کے لیے طلاقیں دیں گئیں، چھوٹی بچیوں کے ریپ ثواب سمجھ کر کیے گئے اور تو اور اِن میزبان ممالک کو فتح کرنے کے خواب دیکھے گئے۔ حالانکہ جب آپ اس ملک کے شہری ہی بن گئے تو فتح کرنا ہی پیچھے رہ گیا۔ ان کے کلچر کی عزت کرنے کے بجائے ان سے نفرت اور وہ بھی کھلے عام نفرت کی گئیں۔ اس سارے حالات کو سامنے رکھیں تو اب مغرب کو کیا کرنا چاہیے؟ صرف 300 سال پہلے کے جنگلی اب انسانی بن چکے ہیں اِنسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔
آج اگر ہم نے اپنی ان منافقانہ خرافات پر قابو نہ پایا تو حالات کسی اورسمت جا سکتے ہیں ۔ مغر ب کے دوبارہ جنگلی بننے کا انتظار نہ کریں۔ وہاں رہیں تو شریف شہری بن کر اگر اُن سے نفرت ہے تو پھرواپس اپنے وطن آجائیں اوریہاں کھل کر قوانین کی خلاف ورزیا ں کریں ۔ قانون توڑیں، جہاں دل چاہے وہاں تھوکیں، فٹ پاتھ پر گاڑی کھڑی کریں ،سڑک کے درمیان نماز پڑھیں بلکہ جو دل کرتا ہے کریں۔ وطن کی اپنے ہاتھوں ایسی کی تیس پھیریں۔ آپ کو کون پوچھنے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ حامی و ناصر ہو۔ آمین!
*******