دہشت گردی : یوحناجان

الفاظ کسی بھی انداز سے ادا کیے جائیں ان کے پس منظر میں وہ خیال اور اردگرد کا ماحول کار فرما ہوتا ہے جو اس کو درجہ بدرجہ ترقی و تنزلی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسی مناسبت سے لفظ دہشت گرد میرے موضوع کا حصہ اور اردگرد کے افعال کی عکاسی کرنے کو بے تابی سے موجود ہے جو نہ صرف اس قوم کی ظاہری بلکہ باطنی عکاسی کا عندیہ ہے۔
لفظ دہشت گردی کا براہ راست تعلق اس سے وابستہ ہر اُس شخص اور قوم تک بغیر کسی رکاوٹ کے منسلک ہے جو اس کو کسی بھی زاویہ سے روزمرہ گفتگو یا سرگرمیوں میں زیر ِبحث لاتے ہیں۔
موضوع پر ایک سرسری نظر کریں تو دو الفاظ کا مجموعہ ملتا ہے جس میں اول الذکر” دہشت ” ۔ جس کے معانی خوف ، ڈر اور ہیبت کے معنوں میں لیا جاتا بل کہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ثانی الذکر لفظ ” گردی ” ہے جس سے مُراد اردگرد یا چاروں طرف ہے۔
ان کے پس منظر پر آنکھیں بند کرکے ایک لمحہ کے لیے چلیں تو یہ اُس کیفیت کو بیان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو شکیب جلالی کے بقول یوں کہا جا سکتا ہے؛
ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے
لہٰذا ہر وہ عمل جو دوسروں کے لیے ضرب یا رکاوٹ کا سبب بنے وہ سب سے بڑی دہشت گردی کہلاتی ہے یا مزید سادہ لفظوں میں کہوں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر بولا ہوا وہ لفظ جو اردگرد ماحول کو ذہنی و جسمانی طور پر ہراساں اور خوف کا شکار کرے وہ براہ راست اسی کے کھاتے میں آتا ہے۔ مطلب عیاں ہوا دہشت گردی صرف بم بلاسٹ ، جسم کا قتل کرنا نہیں بل کہ ہر وہ بندہ جو دفاتر میں کُرسی پہ بیٹھ کر غریب اور بے کس سے رشوت کی تمنا کرے وہ سیدھا دہشت گرد کہلاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کون سی مٹی سے تیار ہو کر اس سرزمین کا حصہ بن چکے ہیں جن پر حرام کا اثر نہ حرام زادوں کا۔
جب سڑک کنارے ریڑھی والے سے خریدداری کر رہے ہوں تو وہ اللہ رسول کی قسم کھانا شروع کرے تو سمجھ جاؤ، اس کے پیچھےبھی یہی دہشت گردی کا بھوت سوار ہے جو کہنے اور بیچنے میں تضاد سرِعام کر رہا ہے۔ بات صرف یہاں تک ہی نہیں،تعلیم کے نام پر آج تجارت کو فروغ اس کی عمدہ دلیل ہے جس کے بدلے آپ دیکھ لیں نمبر تو ڈالروں کی مانند بڑھ رہے ہیں مگر اخلاقیات روپے کی طرح کم ہو رہی ہے یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔
اکثر گھر سے نکلتے وقت متعدد دفعہ دیکھنے کو ملا کہ گلی کی نکڑ پر چند اوباش کھڑے ہیں منہ میں سگریٹ اور پان ، زبان دانی خوب کہ ماں کی عزت نہ باپ کی معلوم ۔ انھی کی وجہ سے گزرنے والی خواتین راستہ بدلنے پر مجبور ہیں ۔ اس بدلنے اور ذہنی پریشانی کا مطلب دہشت گردی ہے۔
اس موجود نظام کا احوال اردگرد سب کا سب اسی کی جڑ ہے ۔ بات یہاں ہی نہیں درخت کاٹ کاٹ کر کالونیاں بنانے کا عندیہ اس وقت بتا رہا ہے تم پہلے کی نسبت اس سال زیادہ پریشان اور آکسیجن کی کمی کاسامنا کرو گے۔
اُستاد کلاس روم میں بھی اُستاد اور اس کے باہر بھی اُستاد ہی ہوتا ہے۔ اگر تم پیسوں اور اجارہ داری کی بنیاد پر ان کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہو تو تم بھی اسی فہرست میں ہو جو خوف و ہراس کی فضاء کو ہوا دے کر اردگرد ماحول کو اپنی لیپٹ میں لے رہے ہو۔ ہر وہ شخص جو غفلت ، بے غیرتی اور بوٹ پالش کو فروغ دے رہا وہ بھی اسی کھاتے میں آتا ہے۔
اقبال اپنی کتاب بالِ جبریل میں ان دہشت گردوں کی رونمائی کرتے ہوئے بیاں کرتے ہیں؛
یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
ایک کلرک سے لے کر اوپر کی سطح تک سب کے سب گفتار کا اسلوب اور کردار کا اسلوب تضاداتی رنگ لیے اس دہشت گردی کو فروغ دینے میں عام ہے۔ عوام کا طبقہ ہو یا حکومت کا ، مذہب کے ٹھیکے دار ہوں یا عزت کے دعوےدار ، مظلوم ہو یا ظالم ، تعیش پسند یا نمائش کے پُجاری ، ہوا و ہوس کے مامے یا غفلت کے ڈرامے سب کے سب دمِ نزع تک بندگان ذلیل کا لبادہ پہنے باغ اُمت میں بے نغمہ و بے ساز بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اخلاق میں بیکار ، عقائد کی یلغار ، آزادی کا اظہار اور خوشامدیوں کی تعداد کثیر ہونے کی وجہ سے اس دہشت نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ کوئی نہ کوئی اپنا رنگ اور اوقات کو پسِ پشت رکھنے کے لیے اس کو ہوا دے رہا ہے ظاہری پوشاک میں عطِر ملتے دوسروں کو فراموشی کا درس دیتے ہیں۔
اس کی زندہ مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ شراب کا پرمٹ بوٹا مسیح کے نام پہ جبکہ شراب کا استعمال مع ہیرا منڈی محمد بوٹا ( فرضی نام) استعمال کرتا پایا جاتا ہے۔
جب دہشت گردی کے بارے اپریشن کی بات ہو تو یہی اول دستہ پائے جاتے لیکن پکڑے جانے کے ڈر سے رفوچکر ہوتے بھی یہی نظر آتے ہیں۔ آخر کار ثابت ہوا سب سے بڑے دہشت گرد اور گروہ یہ سب کارندے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کی نظم “سراغ ِ راہرو” کے دو مصرعے ملاحظہ کیجیے؛
صنم تراش نہ ہو تو صنم نہیں بنتا
قدم نہ ہو تو نشان ِ قدم نہیں بنتا
بہرحال یہ تھا میرا موضوع جو خود بتا رہا ہے ہائے بیچارےمعصوم کتنے لگتے ہیں جب فطرت اپنا آپ عیاں کرکے ان کو ان کی اوقات دکھاتی ہے۔

نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading