(بلوچستان میں حالیہ غیرت کے نام پر قتل- پس منظر ، وجوہات اور حل)
جولائی 2025ءمیں بلوچستان کے علاقے دگاری یا مستونگ میں ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں بانو بی بی اور احسان اللہ سملانی کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق بانو نے خاندان کی مرضی کے بغیر شادی کی تھی۔ اس کا بھائی اور دیگر افراد، جن میں قبائلی جرگے کے ارکان بھی شامل تھے، دونوں کو گولی مار کر ہلاک کرتے دکھائی دیے۔ بانو کو سات گولیاں اور احسان کو نو گولیاں ماری گئیں۔ اس واقعے پر ملک بھر میں شدید ردِعمل سامنے آیا اور کئی مظاہرے بھی ہوئے۔ موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی بانو نے ظالموں سے کہا کہ”تمہیں صرف گولی مارنے کا حکم ہے“جبکہ اُس نے قرآن مجید اُٹھا رکھا تھا، نہ جانے وہ بیچاری کس کو اللہ کے عذاب سے بچا رہی تھی۔
غیرت کے نام پر قتل کی سماجی و ثقافتی بنیادیں؛
بلوچستان سمیت پاکستان کے کئی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل صدیوں پرانی قبائلی روایات سے جڑے ہیں۔ یہاں مردوں کو خاندان کی عزت کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کی مرضی سے شادی، غیر مردوں سے تعلق، یا سوشل میڈیا پر موجودگی کو خاندان کی بدنامی سمجھا جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں مرد اپنی ”غیرت“ کے دفاع کے لیے خواتین کو قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ یہ نظریہ نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہے۔
جرگہ سسٹم اور غیر قانونی فیصلے؛
قبائلی علاقوں میں ریاستی عدالتی نظام کی عدم موجودگی کے باعث جرگے خود ساختہ فیصلے سناتے ہیں۔ اُن میں سے کئی فیصلے خواتین کے خلاف ہوتے ہیں اور غیرت کے نام پر قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ جرگوں کا یہ طرزِ عمل نہ صرف انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ یہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے ایسے جرگوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے، مگر اُن کا اثر آج بھی برقرار ہے۔ اور حکومت قبائلی علاقاجات کو فیڈریشن میں شامل کرنے سے ناکام رہی ہے، جس وجہ سے علاقہ جات ریاست کے اندر ریاستیں سمجھیں جاتی ہیں۔
قانونی صورت ِحال اور کمزور نفاذ؛
پاکستان نے ۶۱۰۲ءمیں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کی جس کے تحت قاتل کو خاندان کی طرف سے معافی دینے پر بھی سزا دی جا سکتی ہے۔ مگر اس قانون پر عملدرآمد کمزور ہے۔ اکثر مقدمات میں ثبوت مٹائے جاتے ہیں، گواہان دباو ¿ کا شکار ہوتے ہیں اور پولیس کی تفتیش ناقص ہوتی ہے۔ عدالتی نظام کی سُست روی بھی مجرموں کو فائدہ دیتی ہے، اور یوں انصاف ناممکن بن جاتا ہے۔ ایسے مقدمات میں قانون کی وہ شقیں جو انگریز کے وقت سے رائج ہے اُس کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اعداد و شمار؛
انسانی حقوق کمیشن کے مطابق صرف۴۲۰۲ءمیں کم از کم۵۰۴ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اصل تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، مگر بلوچستان میں بھی اصل صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے، اگرچہ وہاں سے کم رپورٹ ہوتے ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ہزاروں خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں؛
۔1۔صنفی عدمِ مساوات اور پدرسری نظام
۔2۔شرم اور عزت سے منسلک سماجی دباﺅ
۔3۔جرگہ سسٹم اور روایتی سوچ
۔4۔پولیس اور عدلیہ کی ناکامی
۔5۔سوشل میڈیا پر خواتین کی خودمختاری پر ردِعمل
۔6۔مذہبی تعلیمات کی غلط تشریح
۔7۔تعلیمی کمی اور جہالت
غیرت کے نام پر قتل کو بعض مذہبی حلقے اسلام کا حصہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، حالاں کہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی تعلیم نہیں ملتی۔ غیرت کے نام پر قتل محض ایک قبائلی اور ثقافتی رجحان ہے جسے مذہب کی آڑ میں جائز قرار دیا جاتا ہے۔اسلام امن، عدل اور رحم کا دین ہے۔ پیغمبرِ اسلام نے کبھی بھی کسی عورت یا مردکواُن کے ذاتی فیصلوں پرقتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔قرآن مجیدبارہا زوردیتاہےکہ “کسی جان کوناحق قتل نہ کرو۔” (بنی اسرائیل33) ایسے ظالمانا اقتال کی روک تھام کیسے ہو سکتی ہے؟
ریاست خود مدعی بنے تاکہ خاندان قاتل کو معاف نہ کر سکے؛
جرگہ نظام کا خاتمہ اور عدالتی دائرہ کار کا نفاذ
پولیس اور تفتیشی اداروں کی تربیت
صنفی تعلیم اور اسکولوں میں انسانی حقوق کا نصاب
میڈیا کی مسلسل رپورٹنگ اور شعور اجاگر کرنا
پناہ گاہوں اور خواتین کے لیے محفوظ ہیلپ لائنز کا قیام
علما و مشائخ کی شمولیت، جو ان افعال کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیں
متاثرہ خاندانوں کی مالی اور قانونی معاونت
حالیہ کیس بطور مثال؛
بانو بی بی اور احسان اللہ کا قتل ایک المیہ ہے مگر یہ ایک موقع بھی ہے کہ ریاست اور معاشرہ جاگ جائیں۔ اِس کیس کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہوا، معروف سیاسی شخصیات نے مذمت کی اور کئی گرفتاریاں ہوئیں۔ لیکن اگر صرف اِس کیس پر کارروائی ہوئی اور نظام نہ بدلا تو یہ سب وقتی ہوگا۔ اِس کیس کو کمزور کرنے کے لئے بانو بی بی اور احسان کو پہلے سے شادی شدہ بتایا گیا جبکہ اس علاقے کے صحافیوں نے بتایا ہے کہ بانو بی بی کو جب واپس دھوکے سے بلایا گیا تو اُس کا حلالہ ایک کم عمر کے لڑکے سے کرایا گیا جس سے شواہد ملتے ہیں کہ اُس نے پہلے شوہر سے طلاق لی تھی ورنہ حلالے کی کیا ضرورت تھی۔
غیرت کے نام پر قتل صرف ایک جرم نہیں بلکہ ایک سماجی بیماری ہے۔ اِس کا حل صرف قانون سازی سے نہیں بلکہ تعلیم، ادارہ جاتی اصلاحات، میڈیا اور مذہبی قیادت کے کردار سے ہوگا۔ خواتین کو برابر کے شہری تسلیم کیے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔غیرت کے نام پر قتل اِنسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ نہ دین اجازت دیتا ہے نہ آئین۔ ہمیں بطور قوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں….غیرت کے نام پر بہیمیت کے، یا انصاف، برابری اور اِنسانی عزت کے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اِس برائی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں۔
اسلامی نقطہ نظر؛
اسلام میں قتل ناحق کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ قرآن کہتا ہے؛
“جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ” (المائدہ:32)
غیرت کے نام پر قتل کو اِسلام میں کوئی جواز حاصل نہیں، بلکہ یہ سراسر ظلم اور جرم ہے۔ حضرت محمد ﷺنے فرمایا؛
“تم میں سب سے بہترو ہ ہے جواپنے اہل خانہ کے لیے بہترہو۔”
ایسے جرائم کے بعد متاثرہ خاندانوں کو شدید سماجی، جذباتی اور معاشی دباؤ¿ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے خاندان خوف کے مارے خاموشی اختیار کرتے ہیں، جبکہ بعض اپنے پیاروں کی یاد میں انصاف کے لیے لڑتے رہتے ہیں۔ اُن کی مدد کے لیے حکومتی سطح پر مستقل ادارے، قانونی معاونت، اور نفسیاتی مشاورت کی اشد ضرورت ہے۔میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف یہ ایسے جرائم کو منظر عام پر لاتا ہے، تو دوسری طرف غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ بعض اوقات متاثرین کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ ذمہ دار صحافت، متاثرہ فریق کی عزتِ نفس کا تحفظ، اور مسلسل فالو اپ رپورٹنگ میڈیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
علمائے کرام اور دینی رہنما معاشرتی اصلاح کے اہم ستون ہیں۔ اِن کا فرض بنتا ہے کہ وہ خطبات اور بیانات میں واضح کریں کہ غیرت کے نام پر قتل نہ صرف غیر اسلامی بلکہ شدید گناہ ہے۔ مساجد اور مدارس میں شعور کی بیداری کی مہمات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نصاب میں ایسے موضوعات شامل کیے جائیں جو صنفی مساوات، اِنسانی حقوق اور تشدد کے خلاف شعور اجاگر کریں۔ نوجوان نسل کو رواداری، برداشت اور احترام سکھایا جائے تاکہ مستقبل میں یہ مسئلہ کم ہو سکے۔پولیس کی ناقص کارکردگی اکثر ایسے مقدمات میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جدید فرانزک تربیت، خواتین پولیس افسران کی شمولیت، اور متاثرین کے لیے خصوصی سیل قائم کرنا ناگزیر ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر جانبدار اور فعال بنانا ہوگا۔سول سوسائٹی، خواتین کی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے ادارے نہ صرف شعور بیدار کرتے ہیں بلکہ متاثرین کو قانونی، مالی اور نفسیاتی مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور سیکیورٹی کی ضمانت دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور دیگر عالمی ادارے پاکستان میں خواتین کے خلاف تشددبالخصوص غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز اُٹھا چکے ہیں۔پاکستان کو بین الاقوامی معاہدات کے مطابق اپنے قوانین اور عملدرآمد کو بہتر بنانا ہوگا۔
پنجاب میں سب سے زیادہ مقدمات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن وہاں قانون کی موجودگی اور میڈیا کی سرگرمی زیادہ ہے۔ سندھ میں فیوڈل نظام رکاوٹ بنتا ہے، خیبرپختونخوا میں قبائلی اقدار اور بلوچستان میں خاموشی زیادہ دیکھی جاتی ہے۔ ہر صوبے کے لیے مخصوص حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
یہ سچ ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ایک گہرا مسئلہ ہے مگر مایوسی کی بات نہیں۔ شعور، تعلیم، ادارہ جاتی اصلاحات، اور اجتماعی کوشش سے ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر اِنسان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہو۔ ہمیں صرف ہمت اور عزم کی ضرورت ہے۔ چند اشعار بانو کے خیالات کی عکاسی کرتے ہوئے، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی؛
گھری تھی چاہ میں، نہ مارتی، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی
نہ بیٹی کو کبھی یوں روتی، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی
نہ روٹی غیرتِ جھوٹی پہ، نہ رسماً خون بہاتی میں
خدا کے خوف سے کانپتی، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی
میں بھائی کو گلے سے لگ کے، دکھوں کا بوجھ بانٹتی
نہ گولی دل پہ میں رکھتی، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی
میں روایات کو توڑ آتی، جرگے کو بھی جھٹلا دیتی
عزت کو دل سے سنبھالتی، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی
کبھی بھی پیار کو جرم نہ جانتی، چاہ کو دفن نہ کرتی
محبّت میں دیا نہ جلاتی، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی
یہی پیغام ہے بانو کا، جو خوں میں آج بھی بہتی
کہ دنیا سچ کو سن لیتی، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی
*******