کل میں نے منٹو کے ترجمہ کردہ وکٹر ہیوگو کے فکر انگیز ناول ” سرگذشت اسیر” پر مختصر تبصرہ پوسٹ کیا تھا۔ اِس کتاب کی قیمت ایک سو روپے ہے۔ مجلس ترقی ادب اپنی شائع کردہ کتب پر پچاس فیصد رعایت دیتی ہے یوں اس کی قیمت محض پچاس روپے رہ جاتی ہے۔پوسٹ پر متعدد دوستوں نے کمنٹ کیے اور کتاب کے حصول کا پوچھا۔ میں نے برادرم ڑاوال حئسساین کو مینشن کیا جنہوں نے رہنمائی کی۔ احباب نے حیرت کا اظہار کیا کہ عالمی ادب کی اہم کتاب اور محض پچاس روپے میں۔دوستو، مجلس ترقی ادب ایک سرکاری ادارہ ہے۔ مذکورہ کتاب مجلس کے سستی کتابیں پراجیکٹ کا حصہ ہے ۔ مجلس کی دیگر اہم کتابیں بھی مارکیٹ سے کہیں کم قیمت پر دستیاب ہیں۔
عام طور پہ ہم کمرشل ناشرین کی اشتہاری مہم کا شکار ہو کر ظالمانہ حد تک مہنگی کتب خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ کتاب کی پبلشنگ ایک کاروبار ہے اور اس پر بھی وہی اصول لاگو ہوتے ہیں جو کارپوریٹ کے ہیں۔ سرمایہ دار کسی خدمت کے لیے کاروبار نہیں کرتا ۔ اس کے سامنے منافع کمانے اور بڑھانے کا مقصد ہوتا ہے۔ ہاں وہ علم کے فروغ وغیرہ کا لبادہ ضرور اوڑھ لیتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے پرائیویٹ ہسپتال اور تعلیمی ادارے اپنے اشتہارات میں عوامی خدمت کا ذکر کرتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ، وطن عزیز میں تعلیم اور صحت ، منافع خور استحصالی کاروبار بن چکے ہیں۔ فقہہ میں اب تک جائز شرح منافع پہ اختلاف ہے! عملا منافع فیصدی میں نہیں، گنا میں لیا جاتا ہے تین گنا چار گنا۔ ایسے بہت سے فلاحی (ٹرسٹ ) ادارے ہیں جو دراصل ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے مقاصد کے تحت بنائے جاتے ہیں۔
بک پبلشرز بھی اپنے متوقع گاہکوں کا چناو کرتے ہیں اور ان تک مہنگی تشہیر کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ کچھ پبلشرز امیروں کو اپنا ٹارگٹ بناتے ہیں۔ وہ کتاب کی قیمت اسی حساب سے رکھتے ہیں۔ اگر کتاب پر 600 خرچ ہوا ہے تو وہ قیمت 1800 یا 2400 رکھیں گے۔ ایسی قیمت کو میں ” قاری کش” کہا کرتا ہوں۔وہ کئی مقبول کتابوں کے نام اور ٹائٹل بدل کر چھاپ دیتے ہیں۔ مصنف کا بھی مقدور بھر استحصال کرتے ہیں اور قاری کا بھی۔
آخر انہوں نے بھی اپنا پراڈکٹ بیچ کر منافع کمانا ہوتا ہے۔سمجھ دار پبلشرز ایک ۔۔۔۔۔ سا انداز اختیار کرتے ہیں۔ وہ اپنی برینڈنگ کر کے مارکیٹ قابو کرتے ہیں۔ بہت سے مصنفین بھی اپنی برینڈنگ کے رسیا ہوتے ہیں۔ یوں کتاب منڈی معیشت اور صارف کلچر کی پراڈکٹ بن جاتی ہے۔مہنگے پبلشرز کو بہت سے متمول گاہک مل بھی جاتے ہیں۔ آخر ہم ایک آلو کے بھنے ہوئے قتلے ایک کلو آلو سے بھی زیادہ قیمت پہ خریدتے ہیں نا۔۔۔ بس ایسی ہی صورتحال یہاں بھی ہے۔ وہ مثالیں بھی اپنے جیسے کارپوریٹ کی دیتے ہیں مثلا کہیں گے کہ اتنے کا تو آپ ایک پیزا لے کر کھا لیتے ہیں!۔
عزیزو، سرکاری اداروں کی کتابیں اب تک سستی ہیں۔ مجلس ترقی ادب ، اکادمی ادبیات، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اردو سائنس بورڈ، مقتدرہ قومی زبان، ادارہ اردو زبان، اردو ڈکشنری بورڈ سمیت کئی ادارے اچھی کتابیں سستے داموں بیچتے ہیں۔ ان تک رسائی حاصل کریں۔میں نے فٹ پاتھ پر کتاب بکنے، خریدنے کو کبھی برا نہیں سمجھا۔ یہاں سے آپ کو اپنی پسند کی کتاب سستے داموں مل جاتی ہے۔ ایسے بہت سے بڑے لوگوں کو جانتا ہوں جو عمدہ پرانی کتابیں شوق سے خریدتے ہیں۔۔۔۔ مذکورہ کتاب 50 فیصد رعایت کے بعد صرف 50 روپے میں ملے گی۔اور مزید اچھی کتابوں کے لیے مجلس ترقی ادب سے رابطہ کریں۔
*******