مغرب انتہا پسند کیوں ہورہا ہے؟: امجد پرویزساحل

کہتے ہیں دنیا میں کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا اور جو کچھ بھی ہوتا ہے اُس کی کوئی نہ کوئی ہسٹری یا وجہ ہوتی ہے مطلب حادثے یک دم نہیں ہواکرتے۔ویسے اس کو انگریزی میں کمپاؤنڈ افیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ میرا یہ کالم پانچ سال پہلے کہی گئی باتوں کا تسلسل ہے جس میں ہمارے رویوں اور اہلِ مغرب میں پائے جانے والے ممکنہ صبر و تحمل میں تبدیلوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ آج کل بھی و ہی ہورہاہے۔ یعنی موجودہ صورت حال پناہ گزینوں بالخصوص مسلمانوں کے حوالہ سے کافی تشویش ناک دکھائی دے رہی ہے۔
اِس دفعہ بات شروع ہوتی ہے کہ انگلینڈ میں تین بچیوں کے قتل سے جہاں ایک انڈر ایج بچہ جس کی فیملی کوئی چار سال پہلے ہی روانڈا سے انگلینڈ شفٹ ہوئی تھی نے سکول میں ایک فنکشن کے سلسلہ میں تیز دار آلہ (چاقو) سے ڈانس کی پریکٹس کرتی بچیوں اور لوگوں پر ہلہ بول دیا جس کے نتیجہ میں تین چھوٹی بچیوں کی جان چلی ہے۔ پولیس نے حملہ آور بچے کو گرفتار کر لیا اور عین اُسی وقت سوشل میڈیا پر یہ بات گردش کرگئی کہ یہ حملہ کسی مسلمان نے کیا ہوگا۔ حالاں کہ انگلینڈ کی پولیس نے بچے کے مذہب کے حوالہ سے کوئی معلومات شئیر نہیں کی اور نہ ہی کوئی واضح شناخت بتائی۔
بحرحال یہ معاملہ سوشل میڈ یا پر تشہیر ہونے کی دیر تھی کہ انگلینڈ کے طول و عرض میں کافی غم و غصہ پایا جانے لگا۔ کچھ جگہوں پر تو دھنگے فساد بھی ہوئے۔یہ دراصل ایک بہانہ بھی تو ہوسکتا ہے جب وہاں ہر پناہ گزینوں اور بالعموم پاکستان،انڈیا اور بنگلا دیش سے گئے ہوئے مسلمانوں نے وہاں کے جوبھی ریت و رواج تھے اپنے کسی نہ کسی عمل سے وہاں میں رہنے والے باسیوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ چاہے قانون کی خلاف ورزی ہو یا دعوت بذریعہ ہراس منٹ ہو یا پھر بیچ چوراہے یا سڑک پر نماز ادا کرنے جیسے واقعات نے پہلے وہاں کے لوگوں کو حیران کیا پھر پریشان کیا۔آہستہ آہستہ مذہب کی آڑ میں غنڈہ کردی بھی شروع کردی۔ اُن کے رہن سہن پر حملے شروع کردیئے۔ مطلب جن مذہبی رسومات سے اُنھیں آزادی حاصل کیے صدیاں لگ گئیں وہی اُن پر اُن ہی کے ملکوں میں جا کر نافذ کرنے کی کوشش کی گئیں۔ کہیں کہیں تو یہ تاثر بھی دینا شروع کردیا گیا کہ یہاں کسی گورے کا آنا ممنوع ہے۔ شریعہ کے نفاذ کو بذور شمشیر اعلانات ہونے شروع ہوگئے۔ گورے یا اُس دیس کے اصلی باسی پچھلے کئی سالوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور اپنے اندر ہی کہیں اس طرع کے غصہ کو پال رہے تھے۔
اس سے پہلے ایسے دھنگے دیگر یورپی ممالک میں بھی دیکھے چکے ہیں چندسال پہلے تو جرمنی میں نئے سال کی کسی تقریب میں گھس کر دہشت گردی کے واقعات بھی میڈیا پر موجود ہیں۔لہٰذا یورپ کے لگ بھگ ہر ملک میں جس میں سویڈن، ڈنمارک، جرمنی،فرانس اور اب انگلینڈ میں۔ کبھی یہ پردے کے نام پر تو کبھی اسلامو فوبیا کے نام پر وہاں کے لوگوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔یور پ جہاں کبھی جہالت اور بربریت کا راج تھی ابھی ڈیڑھ دو صدیوں کی تو بات ہے اَمن ہوئے جب سے اُنھوں نے چرچ کی غلامی سے آزادی حاصل کی ہے یا یوں کہہ لیں جب سے اُنھوں نے ریاست اور چرچ کو اپنی اپنی ذمہ داریاں سونپتے ہوئے ریاست کو آئین و قانون کو انسانی حقوق کی بنیادوں پر چلانے کا عہد کیا ہے۔
جس دَور سے ہم گزر رہیں یورپ اس میں سے کب کا گزر چکا ہے اب وہ صرف شخصی آزادی پر یقین رکھتا ہے اور جرم اور گناہ کی تفریق کو واضح کرکے ریاست میں بسنے والے شہری کو اس کے عقائد اور اللہ کی رضا و جزا پر چھوڑ دیا ہے تاکہ ریاست اپنے امور شہریوں کی بہبود اور ترقی پرنپٹا سکے۔ مسلم ممالک بالخصوص پاکستان جیسے ملکوں سے گئے ہوئے لوگ جب مذہب کو ریاست پر ترجیح دیتے ہوئے ریاست کے قانون کو بالائے تاک رکھتے ہیں تو یورپ کو یہ بات نہایت ناگوارگزرتی ہے۔ جس پر ریاستی مشنری حرکت میں آتی ہے جس کو ہم ظلم یا شاید اسلامو فوبیا قرار دیتے ہوئے دنیا کو اپنے حصہ کا واویلہ بتاتے ہیں۔ پہلے یہ بات ریاستوں تک محدود تھی اب اس کی حدت کو وہاں کے عام شہری نے بھی شدت سے محسوس کیا ہے۔ تبھی تو وہاں کی انتہائی دائیں بازو کی تنظیمیں اور لوگ حکومت کو سمجھانے اور ناجائز طور پر پناہ گزیوں کو وہاں سے نکالنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا کہ وہاں کی عوام نے کافی کچھ برداشت کرنے کے بعد ہی یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے۔اب مزید وہ ناجائز پناہ گزیوں کو وہاں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔اگر آپ یورپ یعنی انگلینڈ اور فرانس کے نعروں اور ایجنڈا پر غور کریں تو اُن کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ اگر آپ نے ہمارے ملک میں رہنا نے تو ہمارے ملک کے طور طریقوں کو اپنا نا ہوگا ورنہ آپ کو ہمارے ملکوں سے جانا ہوگا۔ یا پھر بس اب بہت ہوگیا۔
اگر تھوڑ ا مزید غور کیا جائے تو بات برُی بھی نہیں۔ دیکھیں ہمیں بھی تو اپنے ملک سے محبت ہے اور ہم بھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی ہمارے کلچر،تقافت اور سماجی طور طریقوں کو زبردستی تبدیل کرے۔جو بھی ہمارے ملک میں آتا ہے وہ چاہے ہمارا لباس نہ بھی پہنے لیکن کسی کو ہمارے لباس کو برا کہنے کی قطعاً اجازت نہیں، کوئی باہر سے آکر یہاں اپنا نظریہ نہیں ٹھونس سکتا۔ وہ نظریہ چاہیے کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو اور اگر کوئی ایسی جرات کرے تو ہمارا بھی وہی ردِعمل ہوگا جیسا آج فرانس یا انگلینڈ کا ہے۔
ہم آج تک گوروں کو برا بھلا کہتے ہیں کیوں کہ انھوں نے ہم پر سو سال حکومت کی ہے۔ حالاں کہ ہم پرگوروں کے علاوہ بھی بہت سوں نے کی، ہمیں فتح کیا اور ہمیں مارا پیٹا بھی لیکن برا ہم گوروں کو ہی کہتے ہیں۔
چلیں جو کچھ بھی ہے ہم اگر اپنے زمینیں بیچ بیچ کر،کشتیوں میں ڈنکیاں لگا کر وہاں سلسلہ روز گار کے لیے چلے ہی گئے ہیں تو ہمیں اپنے معاشی مسائل پر توجہ دیتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔اگر کوئی ملک ہمیں خدا ترسی کی خاطر یا انسانیت کے خاطر پناہ دے ہی دیتا ہے تو ہمیں خاندانی ہونے کا ثبوت دینا چاہیے اور جو پناہ لیتے یا رہایش لیتے ہوئے حلف دیا اس کا پاس بھی رکھنا چاہیے ورنہ ہم بے وفا اور ناقابلِ اعتبار قوم کہلائیں گے اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو مغرب اپنے امن پسند دور سے نکل کردوبارہ انتہا پسندی میں چلا جائے گے۔ پھر ہمارے پاس نہ آگے کا رستہ ہو گا نہ پیچھے کا۔ اس کا حل یہ ہے کہ جس ملک میں بھی جائیں اگر ان کا کلچر،رہن سہن،طور طریقے آپ کو پسند نہیں تو اپنے وطن میں واپس آجائیں یہاں کام کریں،محنت کریں۔ اپنے ملک کی تعمیرو ترقی میں حصہ ڈالیں ورنہ خاموش رہیں۔ اچھے وفادار انسان ہونے کا ثبوب دیتے ہوئے جس ملک کا پاسپورٹ حاصل کرتے عہد کیا ہے اُسے ایک اچھے اور خوددار انسان کی طرح نبھائیں اُس ملک کی خیر چاہیں۔

نوٹ: ’’تادیب‘‘کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ ’’تادیب‘‘ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading