سانحہ ء گیارہ ستمبر 2001 ء : پروفیسرعامر زریں

گیارہ ستمبر 2001ء عالمی تاریخ میں اپنی بھیانک تباہی اور اس کے بعدپیدا ہونی والی سنگین صورتِ حالات کے لیے ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔ اس روز ایک مربوط حملے میں جس کے لئے طیاروں کو ہتھیاروں میں تبدیل کر دیا گیا اور دہشت گردوں نے جان بوجھ کر دو طیاروں کو نیویارک شہر میں عالمی تجارتی کمپلیکس ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز سے ٹکرادیا، جس سے ٹاورز گر گئے۔ ان بلند و بالا ٹاورز کے زمیں بوس ہونے سے ہزاروں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی اور ہزاروں ملبے کے نیچے دب گئے اور زخمی ہو گئے۔

دراصل مشرقی امریکہ پر محوِ پرواز چار طیاروں کو ہائی جیکروں کی چھوٹی ٹیموں نے بیک وقت قبضے میں لے لیا۔ اس کے بعد انہیں نیویارک اور واشنگٹن میں تاریخی عمارتوں سے ٹکرانے کے لیے دیوہیکل، گائیڈڈ میزائل کے طور پر استعمال کیا گیا۔ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز سے دو طیارے ٹکرا دئیے گئے۔

جہادی تنظیم القاعدہ نے امید ظاہر کی کہ امریکی طاقت کی ان علامتوں پر حملہ کرکے وہ پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا دیں گے اور عالمی برادری میں امریکہ کے موقف کو شدید طور پر کمزور کر دیں گے، اور مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا میں اپنے سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لئے حمایت حاصل کرلیں گے۔ اور وہ بڑی حد تک اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔

نائین الیون کے حملے نہ صرف انسانی تاریخ کا واحد مہلک ترین دہشت گردانہ حملہ بن گئے، بلکہ یہ فائر فائٹرز کے ساتھ ساتھ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے افسران کے لیے بھی سب سے مہلک واقعہ تھے۔ نیویارک سٹی فائر ڈیپارٹمنٹ نے 9/11 کے اس خونگیں دن اپنی صفوں میں سے 343 کارکنوں کو کھو دیا۔ 11 ستمبر 2001 کی صبح، انیس دہشت گردوں کے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کر کے کئی جان لیوا حملوں کا ارتکاب کرنے سے 2,977 افراد ہلاک ہوئے۔

گیارہ ستمبر نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ” کا آغاز کیا جو اس وقت بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔جب دہشت گرد تنظیموں کی نئی نسلیں نئے ناموں کے ساتھ اور پوری دنیا میں ”حقیقی” اسلام کی بالا دستی کے لیے بات کرنے کا اعلان کر رہی ہیں۔“ ٹریڈ ٹاور کی تباہی کے بعد شروع کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کی ایک نسل کا شکار کیا گیا اور بہت سے مارے گئے، بہت سے جیلوں میں قید وبند کی مشکلیں اٹھاتے اٹھاتے سڑ گئے۔

ہر سال امریکہ کی تاریخ کا یہ سیہ دن قومی سطح پر منایا جاتا ہے۔ امریکیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ امریکی قوم کے کھوئے ہوئے لوگوں کے اعزاز میں کمیونٹی سروس میں حصہ لیں، اس دن کو مناسب تقریبات اور سرگرمیوں کے ساتھ منائیں تاکہ 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے معصوم متاثرین کو خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔ اس دن کو قومی دن کی حیثیت حا صل ہو چکی ہے۔ اس دن کو یومِ حُب الوطنی (Patriot Day) کے طور پر ریاست ہائے متحدہ میں 11 ستمبر کو ان لوگوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جو 2001ء میں نیویارک شہر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور ورجینیا میں پینٹاگون پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہوئے تھے اور جو یونائیٹڈ ایئر لائنز کی پرواز 93 کے ہائی جیک ہونے کے بعد ہلاک ہو گئے تھے۔

گیارہ ستمبر 2001 ء کی ہولناکیوں کی کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ان دہشت گرد حملوں پر امریکہ کے ردعمل میں افغانستان پر حملے، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (MENA) کے علاقے پر گہرے غیر مستحکم اثرات مرتب کیے تھے۔ جنگ اور عدم استحکام کو جنم دینے کے علاوہ، جنگ کے بعد کی امریکی پالیسیوں نے پورے MENA میں امریکہ مخالف کی ایک مضبوط لہر کو جنم دیا۔

براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز نے اپنی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکی ردِعمل کے نتیجہ میں دُنیا کے مختلف مسلمان خطوں میں مرنے والوں کی تعداد 480,000 اور 507,000 کے درمیان بتائی ہے۔ہلاک ہونے والوں میں عام شہری، مسلح جنگجو، مقامی پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ امریکی اور اتحادی فوجی بھی شامل ہیں۔

الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق میں 182,272 سے 204,575 شہری مارے گئے ہیں۔ افغانستان میں 38,480؛ اور پاکستان میں 23,372۔ اسی عرصے میں عراق اور افغانستان میں تقریباً 7000 امریکی فوجی مارے گئے۔ایک تحقیق کے مطابق، 11 ستمبر 2001 کے حملے کے بعد امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ” کی وجہ سے افغانستان، عراق اور پاکستان میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عسکری امور کا جائزہ اور تحقیق کرنے والے صحافیوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ رپورٹنگ میں محدودیت اور ”جنگ میں ہلاکتوں کی کسی بھی گنتی میں بڑی غیر یقینی صورتحال” کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ”کم گنتی” ہے۔نیرا کرافورڈ، تجزیہ کار، نے لکھا ہے کہ، ”ہمیں شاید ان جنگوں میں ہونے والی کل ہلاکتوں کی تعداد شاید کبھی معلوم نہ ہو پائے۔“

اس کے علاوہ وہ لوگ جو جنگ کے نتیجے میں بالواسطہ طور پر مارے گئے، جیسے کہ بیماری یا خراب انفراسٹرکچر کے ذریعے، انہیں ان ہلاک شدگان کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ایک بیان میں، براؤن یونیورسٹی نے کہا کہ نیا ٹول ”آخری گنتی کے مقابلے میں 110,000 سے زیادہ اضافہ ہے، جو صرف دو سال قبل اگست 2016 میں جاری کیا گیا تھا”۔

”اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکی عوام، پریس اور قانون سازوں کی طرف سے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، لیکن جسمانی تعداد میں اضافہ اس بات کا اشارہ ہے کہ، نہ رکنے والی یہ جنگ شدید رہی۔” افغانستان میں امریکی جنگ، جو کہ 17 سال تک ملک کی سب سے طویل فوجی جارحیت رہی ہے، اور آخرِ کار اس جنگ کا خاتمہ عمل میں آیا، لیکن 2018 میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد اس جنگ میں سب سے زیادہ رہی ہے، ان پریشان کن اعداد و شمار پر صرف اب افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

آج نائین الیون کے سانحہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اس ضمن میں مختلف واقعات اور رپورٹوں کا جائزہ ہمیں بہت کچھ سوچنے اور عالمی امن کو بحال رکھنے کی کوششوں پر مجبورکرتا ہے۔ مختلف ملکوں اور جہادی گرپوں کے درمیان جاری جنگ میں دو نوں حلیفوں کے اپنے اپنے مقاصد اور پالیسیاں ہیں۔ لیکن اس تنازعہ اور جنگ میں امن پسند اور معصوم شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ کئی ایک افراد بے قصور ہی قید و بند کی صعوبتیں سہتے رہے، کئی ایک بے جرم ہی تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ایسے میں فیض احمد فیض کی نظم کا ایک مصرعہ زباں پہ آتا ہے؛
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
ربّ باری تعالٰی عالمی امن کے قیام میں ہر ملک اور ہر خطہ کے عوام کو ہدایت کرے۔آمین

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔”تادیب”  ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading