دنیا کےجدید معاشروں میں انسان کی فطرت انسان سے محبت ہی رہی ہے اور اسی کے تحت یہ ایک دوسرے سے مل جل کر رہتا ہے اور ایسے ہی معاشرے کا وجود قائم ہوتا ہے کیوں کہ انسان کا باہمی رہنا سہنا کھانا پینامشاغل و فنون لطیفہ ایک تہذیب یا کلچر کہلاتا ہے اور پھر اس معاشرے سے قوم کا وجود بنتا ہے اور انسان سے انسان کےتحفظ کے تحت کمزور اور طاقتور میں برابری کی سطح پر طاقت بانٹنے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور یہ ہی خدا تعالی’ کی منشا بھی انسان کی انسان سے محبت میں اظہار ہی ہے۔ جب کہ مذاہب اخلاقی قدروں کا منبع ہیں انسان پر آفتیں آئیں مصیبتیں آئیں اور مشکلیں آئیں تو پھر انسان ہی ان کو سنبھالتے ہیں اور تمام مذاہب انہی اخلاقی قدروں کی راہیں استوار کرکے اپنی عاقبت کا سماں کرنے کا اہتمام کرت ہیں دنیا کے بڑے مذاہب کے بارے میں بات کریں تو دنیا میں مسیحیت 2 ارب 20 کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے جس کے پیروکاروں کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا 5•31 فی صد ہے جس کا نصف رومن کیتھولک مسیحیوں پر مشتمل ہے پوپ فرانسیس، خداوند یسوع مسیح کے ارشاد اعظم کے تحت ان کے پیروکاروں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ہے جن میں سے بیشتر سنی مسلمان ہیں جن میں سے 10 سے 13 فی صد شیعہ ہیں۔ جب کہ دنیا کی 16 فی صد آبادی لا دین ہے۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جابر حکمران یا سپر پاورز کی دنیا میں ادل بدل ہوتی آئی ہیں اور اس طرح ان کی تعداد علاقہ زبان اور دیگر معدنی اور قدرتی وسائل کی مفتوحہ و فاتح علاقوں و ملکوں کی وسعت و کمی تاریخ کا حصہ رہی ہیں دنیا میں پھیلے ہوئے مذاہب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں لیکن مذاہب کے درمیان مذہبی طبقے جب عدم برداشت اور انتہا پسندی کے تحت جبر سے دوسروں کو زیر کریں تو فساد اور دہشت گردی جنم لیتی ہے حالاں کہ مذہب انسان کے اچھے کردار کے تحت دوسروں کو مائل کرنے کا سبب ہوتا ہے صدیوں سے انسان نظریات عقائد اور رائے پر جنگ کے لیے اترتا آیا ہے لیکن تجربات کے تحت انسان کی سوچ میں تبدیلی بھی آتی ہے اور یہ مذاہب کے درمیان شدت کو کم کرنے اور ہر انسان کو جو خدا کی مخلوق ہے اس سے محبت کا خواہاں بھی ہے جس کا کسی بھی نسل مذہب اور فرقے یا علاقے سے تعلق ہی کیوں نہ ہو تازہ ترین حالات کے تحت دعوت ڈاٹ کام کے مطابق ”اس وقت مسیحی مذہبی راہنما پوپ فرانسس مختلف ممالک کے دورے پر ہیں جہاں وہ مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں ۔اپنےدوروں کے دوران وہ سماج میں مذہبی ہم آہنگی کا پیغام عام کر رہے ہیں ۔بتایا جا رہا ہےکہ پہلی مرتبہ پوپ فرانسیس کا بیرون ملک کا اتنا لمبا دورہ شیڈول ہوا ہے۔دریں اثنا وہ گزشتہ روز جمعرات کو انڈو نیشیا بھی پہنچے۔ انڈونیشیا کے دورے کے دوران یہاں کے شاہی امام کے ساتھ دنیا کو امن اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ رپورٹ کے مطابق پوپ فرانسس نے جکارتہ کی استقلال مسجد کے امام اعظم کے ہمراہ ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے، جس میں مذہبی ہم آہنگی اور ماحولیاتی تحفظ پر زور دیا گیا۔ پوپ فرانسس نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ مذہب کو تنازعات پیدا کرنے میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
پوپ فرانسس اور امام اعظم نے استقلال مسجد کی 91 فٹ لمبی سرنگ کا دورہ کیا جو مسجد کو قریب ہی موجود کیتھولک چرچ سے جوڑتی ہے۔ یہ سرنگ مذہبی بھائی چارے کی علامت سمجھی جاتی ہے اور مختلف مذہبی عقائد رکھنے والے لوگوں کی مشترکہ میراث کو ظاہر کرتی ہے۔5 اگست، 2024
پوپ فرانسس نے اپنی تقریر میں کہا کہ تمام مذہبوں کے پیروکاروں کو سمجھنا چاہیے کہ ہم سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اور سب کا آخری مقصد خدا تک پہنچنا ہے۔ انہوں نے موجودہ دور میں انسانیت کو جنگ، تنازعات اور ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے ’سنگین بحران‘ سے دو چار قرار دیا۔
پوپ فرانسس نے امام اعظم کے ساتھ مل کر مذہبی ہم آہنگی اور ماحولیات کے تحفظ پر زور دیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ مختلف مذہبی عقائد کے حامل لوگوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارہ ہونا چاہیے۔واضح رہے کہ انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے اور 27.5 کی آبادی میں سے تین فیصد کیتھولک مذہب کے پیروکار ہیں۔ انڈونیشیا میں 6 سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذاہب اسلام، پروٹسٹنٹ ازم، کیتھولک ازم، بدھ مت، ہندو مت اور کنفیوشس ازم ہیں۔87 سالہ پوپ ایشیا بحرالکاہل خطے کے 11 روزہ دورے پر ہیں اور جمعرات کو انڈونیشیا میں ان کا آخری دن تھا۔ یہ ان کی مدت کار کے دوران ان کا طویل ترین غیر ملکی دورہ ہے“
قارئین وائس آف امریکہ کے مطابق جکارتہ ویٹیکن استقلال ڈیکلیریشن کی سمری ایسے ہے
۔1۔ پوپ فرانسیس اور انڈونیشیا کی مسجد استقلال کے امام اعظم نے بین المذاہب دوستی کے لیے اپیل جاری کی ہے
۔2۔ انڈونیشیا میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ چھ مذاہب اور عقائد کے نمائندے اس تقریب میں موجود تھے۔
۔3۔ پوپ فرانسیس اور امام اعظم نصر الدین عمر دوستی کی سرنگ میں داخل ہوئے جو مسجد کے احاطے کو قریب واقع کیتھولک چرچ سے جوڑتی ہے۔
۔4۔ مسجد میں ہونے والی ملاقات میں ایک ذاتی پہلو میں 87 سالہ پوپ اور 65 سالہ امام اعظم نے ایک دوسرے کے لیے واضح اخلاص کا اظہار کیا۔
۔5۔ جمعرات کو شروع کیا گیا نیا اقدام جس کا نام استقلال اعلامیہ ہے اب پوپ کے بین المذاہب ہم آہنگی عزم کا ستون بن گیا ہے۔
قارئین مذاہب کے حوالے سے اگر ہم مسیحیت اور اسلام کی تاریخ کو دیکھیں تو مسیحیت کا آغاز 2000 سال سے اور اسلام کا 1400 سو سال سے ہوا، مسیحیت اور اسلام کا رشتہ بہت پرانا ہے تاریخ شاہد ہے کہ اسلام سے قبل عربستان میں مسیحیت کے حوالے سے50 عیسوی میں کلیسیائیں اور چرچز بلڈنگز موجود تھی۔ خداوند یسوع مسیح کے شاگرد اور اسلامی کتب اس تاریخ کو کنفرم کرتی ہیں اسی طرح اسلام کی دنیا میں تبلیغ ہوئی جسے مسیحیت اپنی کتابوں میں کنفرم کرتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد میں سے تین الہامی مذاہب کا ظہور ہوا جس میں اسرائیل، مسیحیت اور اسلام اس دنیا میں موجود ہیں۔
پوپ اور انڈونیشین حکمرانوں اور شاہی امام کے درمیان ایک دوسرے کو بوسے دینا بہت پاکیزہ محبت کی علامت اور مذاہب کی اخلاقی قدروں کو تسلیم کرنا اور محبت و یگانگت سے آگے بڑھنے کی دلیل ہے۔
ادھر ماحولیاتی حدت نے دنیا کو خطرے میں ڈال دیا ہے اگر اس مسئلے پر چند سال تک غور کرکے اس کی بہتری کے لیے مذہبی تفریق و تقسیم کے بغیر باہم آگے نہ بڑھے تودنیا میں زندگی کا وجود قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا پانیوں اور قدرتی وسائل پر جنگ و جدل کے احتمال سے چھٹکارہ ملے گا بشرط یہ کہ تمام مذاہب انسانی اور مذہبی قدروں کا احترام کریں۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔”تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******