آج میں ایک اہم بات کرنا چاہتا ہوں، جو بظاہر چھوٹی لگتی ہے لیکن درحقیقت ایک پوری قوم کے مستقبل سے جڑی ہوئی ہے۔ میری بات کا تعلق دوسری جنگِ عظیم سے ہے، جب جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کے مخالف جنگ لڑ رہے تھے۔ اس شدید کشمکش اور تباہی کے باوجود، ان قوموں کو اس بات کا بھرپور احساس تھا کہ ان کے قیمتی اور نایاب فن پارے، بالخصوص پینٹنگز، اس جنگ میں ضائع ہو سکتی ہیں یا دشمن کے ہاتھ لگ سکتی ہیں۔ یہی احساس ان کی بصیرت، تہذیب سے وابستگی اور اپنی وراثت سے محبت کی نشانی تھا۔
فرانس نے اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی قدم اٹھایا۔ تمام اہم پینٹنگز کو ایک ٹرین میں رکھا گیا، اور اس ٹرین کو ملک بھر میں مسلسل حرکت میں رکھا گیا۔ وہ ٹرین ہر 24 گھنٹے بعد کسی نہ کسی شہر میں پہنچتی، جہاں ایندھن یا دیگر ضروریات پوری ہوتیں، اور پھر فوراً اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتی۔ جس شہر کو تباہی کا خطرہ زیادہ ہوتا، وہاں سے یہ ٹرین فوراً نکل جاتی۔ اس دوران ٹرین کبھی رکی نہیں، اور جب جنگ ختم ہوئی تو وہ پیرس کے ایک ریلوے اسٹیشن پر واپس پہنچی۔ اس کے بعد تمام محفوظ کردہ پینٹنگز دوبارہ گیلریوں اور عجائب گھروں کی زینت بن گئیں۔
اسی طرح جرمنوں نے بھی اپنی ثقافتی وراثت کو بچانے کے لیے نہایت حکمت عملی سے کام لیا۔ انہوں نے اپنی پینٹنگز اور نوادرات کو ان دور دراز دیہات میں چھپایا جہاں کی آبادی بہت کم تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جنگ میں بڑے شہروں کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کم آبادی والے علاقوں میں اپنی تاریخ اور فن کو چھپا کر محفوظ رکھا۔ اسی لیے آج فرانس اور جرمنی دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہیں جہاں لوگ صرف تفریح کی خاطر نہیں بلکہ تاریخ، ورثے، فن، اور ثقافت کو دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔
دنیا بھر سے سیاح فرانس آتے ہیں، تاریخی عمارتیں دیکھتے ہیں، عجائب گھروں میں جاتے ہیں، پینٹنگز کو دیکھ کر تصویریں بنواتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ ان اقوام نے اپنا ورثہ نہ صرف محفوظ کیا، بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سبق بھی دیا کہ ثقافت، ورثہ اور فن قوم کی پہچان ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ہمارے ہاں تربیت کی شدید کمی ہے۔ حالانکہ تربیت ایک سادہ، مفت اور روزمرہ کا عمل ہے۔ ایک باپ یا بڑا بھائی گھر میں دے سکتا ہے، ایک استاد اسکول میں دے سکتا ہے، ایک مذہبی رہنما مدرسے میں دے سکتا ہے، لیکن افسوس کہ آج ہمارے تمام رہنما خود تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ جب بنیادی رہنما خود شعور سے خالی ہوں تو وہ دوسروں کو کیا سکھا سکیں گے؟
آج پاکستان میں ہر چھوٹا یا بڑا یوٹیوبر کسی نہ کسی ملک میں جا چکا ہے۔ آپ ان کی تربیت کا اندازہ ان کی یوٹیوب ویڈیوز سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ وہ ویڈیوز پاکستانی ایئرپورٹ سے بیرونِ ملک روانگی کی فلمبندی سے شروع ہوتی ہیں۔ وہ جہاز میں بیٹھے مسافروں کو تنگ کرتے ہیں، چاہے وہ مسافر ویڈیو میں آنا چاہیں یا نہ چاہیں۔ پھر جس ملک میں اترتے ہیں، ایئرپورٹ سے نکلتے ہی وہاں کی سڑکیں، سستے ہوٹل، کھانے پینے کی اشیاء اور راہ چلتے لوگوں کو کیمرے میں قید کر کے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے قوم کو اس ملک کی سیر کروا دی ہے۔
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کوئی شخص واقعی سیاحت کے ارادے سے کسی ملک جاتا ہے تو وہ وہاں کے تاریخی، سائنسی، تعلیمی اور ثقافتی مقامات کی سیر کروائے۔ ان کے بارے میں بنیادی معلومات دے، تاکہ پاکستان کے عوام کو بھی اندازہ ہو کہ دنیا کہاں کھڑی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
جو قومیں اپنی وراثت سنبھالتی ہیں، ان کی آنے والی نسلیں فخر سے کہہ سکتی ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کون تھے، ان میں کیا ہنر تھے، وہ کس معاشرتی اور معاشی درجے پر تھے، اور انہوں نے ہمارے لیے کیا کچھ چھوڑا۔ آج ہم قیامِ پاکستان یا اس سے پہلے کی بنی ہوئی عمارتوں پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے پاس شاہی قلعہ ہے، شالامار باغ ہے، سر گنگا رام کی بنائی ہوئی جی پی او بلڈنگ ہے، لاہور میوزیم ہے، لاہور ریلوے اسٹیشن ہے، انگریز دور کے دریا، نہریں، پل اور ریلوے لائنز ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم ان کو بھی نہ سنبھال سکے۔
اس وقت پاکستان میں سینکڑوں چھوٹے ریلوے اسٹیشن ایسے ہیں جو مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ ان کی اینٹیں عوام نے خود اٹھا کر لے گئیں۔ محکمہ نہر کے انگریز دور کے بنگلے اجڑ چکے ہیں، ان کی دیکھ بھال نہ ہو سکی، ان کے دروازے، چھتیں، اور دیواریں مٹی میں مل چکی ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ صرف اس لیے کہ ہمارے لوگوں کو یہ شعور ہی نہیں دیا گیا کہ اپنی چیزوں کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے، اور قومی اثاثے کس قدر قیمتی ہوتے ہیں۔
یہ تمام عمارتیں اور ادارے اگر انگریزوں نے بنائے بھی تھے تو وہ اپنے ساتھ تو نہیں لے گئے تھے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے بنایا گیا تھا، اور آج بھی ہم ہی انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ہماری آج کی نسل، جو 2025 میں جی رہی ہے، ان عمارتوں اور ورثے کے بارے میں کچھ جانتی ہے؟ اور اگر وہ نہیں جانتی، تو آنے والے وقت میں وہ اپنے ملک کے بارے میں دنیا کو کیا دکھائیں گے؟
ہمارے ہاں چند گنے چنے یوٹیوبرز، محققین، یا تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو دنیا میں پاکستان کا مثبت تعارف کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جب 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی، فرانس اور جرمنی نے اپنے ورثے کو بچا لیا۔ آج وہی ورثہ ان کی ترقی، سیاحت، اور عالمی شناخت کا ذریعہ بن چکا ہے۔ لیکن ہم، جو امن کے دور میں جی رہے ہیں، آج بھی اپنے ورثے کی قدر نہیں کر پا رہے۔
ہمارے پاس ایسا کیا ہے جو ہم دنیا کو دکھا سکیں؟ کیا ہمارے پاس کوئی ایسا پرکشش، دلکش، تعلیمی یا سائنسی مقام ہے جہاں دنیا سے لوگ آئیں اور اپنے ملک جا کر فخر سے کہیں کہ یہ پاکستان کا مقام ہے؟ اگر ایسا کچھ نہیں تو ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنی آئندہ نسل کے لیے کیا چھوڑا؟
اس مضمون کو لکھنے کا مقصد صرف تنقید کرنا نہیں بلکہ ایک اجتماعی بیداری پیدا کرنا ہے کہ ہم انفرادی طور پر، بطور باپ، استاد، یا مذہبی رہنما اپنی نسل کی تربیت کریں، تاکہ وہ نہ صرف اپنے قومی اثاثہ جات کو محفوظ رکھیں، بلکہ دنیا میں پاکستان کو ایک مہذب، باوقار، اور باعلم قوم کے طور پر متعارف کروا سکیں۔
******


